Live Updates

صحافتی تنظیموں نے مجوزہ انتخابی اصلاحات بل کی بعض شقوں کو مسترد کر دیا،بل کی ہر فوم پر مخالفت کا اعلان

بل کی ہر فورم پر مخالفت کی جائے گی، پریس گیلری سے واک آئوٹ، ملک گیر احتجاج کیا جائیگا، صحافتی تنظیموں کے اجلاس میں فیصلہ میڈیا پر پابندی لگانے کی کوئی شق شامل کی گئی ہے تو اس کے خلاف میڈیا کا ساتھ دینگے ، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کااعلا ن پارلیمانی کمیٹی میں شامل تمام جماعتوں کوانتخابی اصلاحات بل کا ابتدائی مسودہ بھیجا گیا ہے ، خامی ہوئی تو مشاورت سے دور کیا جا ئیگا ، عرفان صدیقی

منگل 17 جنوری 2017 20:56

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 17 جنوری2017ء) صحافتی تنظیموں نے مجوزہ انتخابی اصلاحات بل 2017ء کی بعض شقوں کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیکر متفقہ طور پر مسترد کرتے ہوئے اس بات پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے کہ مجوزہ قانون صحافتی تنظیموں کو اعتماد میں لئے بغیر تخلیق کیا گیا ہے جس میں آمرانہ سوچ، آزادی صحافت اور اظہار رائے کو روکنے کی کوشش کی گئی ہے جو صریحاً آئین، بنیادی حقوق اور جمہوری معاشرے کے منافی ہے، اجلاس میں مجوزہ بل کی متنازعہ شقوں کے خلاف ہر فورم پر آواز اٹھانے کے لئے پارلیمانی آئینی کمیٹی، پارلیمانی پارٹیوں کے سربراہوں، بار ایسوسی ایشنز کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

صحافتی تنظیموں نے متبادل تجاویز کا مسودہ تیار کر کے متبادل تجاویز کا مسودہ آئینی کمیٹی کے حوالے کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔

(جاری ہے)

صدر این پی سی شکیل انجم کی صدارت میں منعقد ہونے والے سینئر صحافیوں، تنظیمی عہدیداروں، مدیران، اینکرز، کالم نگاروں اور بیورو چیفس اجلاس میں شریک ہوئے۔ اس موقع پر فری اینڈ فیئر الیکشن (فافین) کی جانب سے مدثر رضوی نے شرکاء کو مذکورہ بل کے اہم نکات پر بریفنگ دی، جس پر صحافیوں نے تشویش کا اظہار کیا کہ مذکورہ الیکشن کمیشن بل 2017ء کے تحت کسی بھی اہم خبر کا لیک ہونا یا اطلاع دینے والے کو 50 لاکھ روپے اور پانچ سال قید کی سزا آئین کے آرٹیکل 19 کے خلاف ہے۔

انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن میں کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے دوران میڈیا کے داخلے پر پابندی لگائی گئی ہے جس پر شرکاء نے شدید احتجاج کیا، شرکاء نے اس بات پر بھی شدید احتجاج کیا کہ اس بل کی تیاری کے وقت میڈیا کو فریق نہیں بنایا گیا، اجلاس میں سینئر اراکین پر مشتمل کمیٹی بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے اسے یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ مجوزہ بل کی منظوری سے قبل تمام متعلقہ حکام سے ہنگامی ملاقاتیں کرے گی، اگر مذاکرات سے مسئلہ حل نہ ہوا تو پھر تنظیمیں راست اقدام کرنے پر مجبور ہوں گی اس ضمن میں پارلیمنٹ کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا جائے گا، جبکہ ملک گیر احتجاج کے ساتھ ساتھ بنیادی انسانی حقوق، آزادی صحافت کے منافی اس کالے قانون کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کرنے کا حق بھی محفوظ رکھا گیا ہے۔

دوسری جانب وزیراعظم کے مشیر عرفان صدیقی ،تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری اور پیپلزپارٹی کی رہنما شازیہ مری نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن سے متعلق نئے قوانین پارلیمنٹ کی کمیٹی میں زیر غور آئے تھے ،اگر اس میں کہیں بھی میڈیا پر پابندی لگانے یا میڈیا کو اطلاعات کی رسائی تک روکنے کی کوئی شق شامل کی گئی ہے تو اس معاملے میں ہم میڈیا کے ساتھ کھڑے ہوں گے ،تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری نے موقف اختیار کیا کہ پارلیمانی کمیٹی میں اس معاملے پر ہماری نظر نہیں پڑی کیونکہ ڈرافٹ تاخیر سے ہمیں دیے جاتے تھے اور الیکشن کمیشن نے بھی اس معاملے میں تجاویز دینے میں تاخیر کی تھی ۔

عرفان صدیقی نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی میں تمام جماعتیں شامل ہیں اور یہ ابتدائی مسودہ تمام جماعتوں کو بھیجا گیا ہے اور اس میں اگر کوئی خامی ہے تو اسے مشاورت سے دور کیا جا سکتا ہے جبکہ شازیہ مری نے کہا کہ میڈیا کو آزادی ہونی چاہیے اور الیکشن کی کوریج سے نہ تو میڈیا کو روکا جا سکتا ہے اور نہ کو کوئی قدغن لگائی جا سکتی ہے ، ایسی کسی بھی تجویز کی پیپلزپارٹی حمایت نہیں کرے گی اور یہ معاملہ پارٹی قیادت کو بھی بتایا جائے گا ۔ (رڈ)
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات