مسلم لیگ (فنکشنل) والوں نے خیرپور میں 36 ہزار ایکڑ اراضی غیر قانونی طور پر الاٹ کرائی، صوبائی وزیر منظور حسین وسان

اس پر مسلم لیگ (فنکشنل) کے ارکان نے ایوان میں زبردست شور شرابہ کیا ۔ ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا نے منظور وسان کو بولنے کی اجازت دی محکمہ انٹی کرپشن کی جانب سے بدعنوانی کے معاملات میں کمزور نہیں بلکہ ٹھوس کیسز بنائے گئے ہیں، اسمبلی میں منظور وسان کے جوابات

بدھ 18 جنوری 2017 20:36

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 جنوری2017ء) سندھ اسمبلی میں محکمہ اینٹی کرپشن سے متعلق وقفہ سوالات کے دوران صوبائی وزیر منظور وسان کی بات پر مسلم لیگ (فنکشنل) کے ارکان نے زبردست احتجاج کیا اور ایوان میں شور شرابہ ہوا ۔ یہ شور شرابہ اس وقت ہوا ، جب صوبائی وزیر منظور وسان نے کہا کہ مسلم لیگ (فنکشنل) والوں نے خیرپور میں 36 ہزار ایکڑ اراضی غیر قانونی طور پر الاٹ کرائی ۔

جب میں اینٹی کرپشن کا وزیر تھا تو اس غیر قانونی کام کی نشاندہی کی تھی ۔ اس پر مسلم لیگ (فنکشنل) کے ارکان نے ایوان میں زبردست شور شرابہ کیا ۔ ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا نے منظور وسان کو بولنے کی اجازت دی ۔ مسلم لیگ (فنکشنل) کی خاتون رکن نصرت سحر عباسی کا سوال طویل ہو گیا تو شہلا رضا نے کہاکہ سوال کریں ، تقریر نہ کریں ۔

(جاری ہے)

نصرت سحر عباسی نے کہا کہ لوگ صحیح کہتے ہیں کہ یہ محکمہ اینٹی کرپشن نہیں ’’ آنٹی کرپشن ‘‘ ہے ۔

شہلا رضا نے نصرت سحر عباسی کو خاموش کرا دیا اور کہا کہ اتنے دن بعد آئی ہیں پھر بھی آرام نہیں آیا ۔ شہلا رضا نے نصرت سحر عباسی سے کہا کہ دوا کھایا کریں ، دوا ہلا کر کھایا کریں ۔ اس پر ایوان میں دوبارہ شور شرابا شروع ہو گیا ۔ سینئر وزیر نثار کھوڑو نے ڈپٹی اسپیکر سے کہا کہ معزز رکن کو خاموش کرائیں ۔ شہلا رضا نے نصرت سحر عباسی سے کہا کہ آپ کی باتیں ٹی وی پر اچھی نشر ہوں گی مگر تقریر نہ کریں ۔

نصرت سحر عباسی نے کہا کہ نثار کھوڑو مجھے براہ راست مخاطب نہ کریں ۔ نثار کھوڑو اور نصرت سحر عباسی کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ نصرت سحر عباسی نے کہا کہ میں وزیر صاحب کے جوابات سے مطمئن نہیں ہوں ۔ میں حکومت کی کرپشن بے نقاب کر رہی ہوں ۔ محکمہ اینٹی کرپشن کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے ۔ مسلم لیگ (ن) کی خاتون رکن سورٹھ تھیبو کا کہنا تھا کہ محکمہ اینٹی کرپشن کی رپورٹ کے مطابق میرپور خاص اور بے نظیر آباد میں کرپشن کا ایک بھی کیس نہیں ہے ۔

کیا وہاں ملائکہ رہتے ہیں ۔ سنا ہے وہاں تو کرپشن کے بادشاہ رہتے ہیں ۔ متعدد ارکان کے تحریری سوالات کے جواب میں ایوان کو بتایا گیا کہ 2009 سے 30 نومبر 2013 محکمہ اینٹی کرپشن نے 776 مقدمات درج کیے ۔ 227 افراد کو گرفتار کیا اور 836630 روپے کی رقم برآمد کی ۔ وقفہ سوالات کے دوران ایم کیو ایم کے محمد دلاور قریشی نے کہا کہ ایوان میں انٹی کرپشن کی کارروائیوں کے حوالے سے جو تفصیلات فراہم کی گئی ہیں ان سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کرپشن صرف سندھ کے صرف 9 اضلاع میں ہورہی ہے اور باقی تمام اضلاع کرپشن فری ہیں۔

جس پر وزیر پارلیمانی امور نثار احمد کھوڑو نے کہا کہ انٹی کرپشن وہاں کارروائی کرتی ہے جہاں سے شکایت موصول ہوتی ہے ۔پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی ثمر علی خاں نے کہا کہ انٹی کرپشن کی جانب سے محض 227 گرفتاریوں اور کسی ایک بھی ملزم کو سزا نہ ملنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ محکمہ صحیح طور پر کام نہیں کررہا ۔وزیر پارلیمانی امور نثار احمد کھوڑو کا کہنا تھا کہ انہوں نے نے ایوان میں پانچ یا دس سال کی کارکردگی نہیں بیان کی بلکہ گزشتہ ایک سال کی کارکردگی پیش کی ۔

وزیر پالیمانی امور نے وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے ایوان میں ارکان کے مختلف ضمنی سوالوں کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ محکمہ انٹی کرپشن کی جانب سے بدعنوانی کے معاملات میں کمزور نہیں بلکہ ٹھوس کیسز بنائے گئے ہیں تاہم ملزمان کو سزا دینا عدالتوں کا کام ہے، عدالتوں کے پاس زیر سماعت مقدمات کی تعداد بہت زیادہ ہے اور نہ جانے انٹی کرپشن عدالتوں کے جج بھی پوری تعداد میں ہیں یا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر ملزمان کے خلاف مقدمات ختم ہوجاتے تو کہا جاسکتاتھا کہ ہم نے صحیح طور پر کام نہیں کیا لیکن یہ تمام مقدمات تاحال زیر سماعت ہیں اور قانون کے مطابق ملزموں کو اپنی صفائی پیش کرنے کا بھی پورا حق حاصل ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ انٹی کرپشن کے پاس نیب کی طرح پلی بارگین کا کوئی اختیار نہیں۔ انہوں نے کہا یہ درست ہے کہ جو ملزمان کرپشن کے کیسز میں پکڑے گئے ان میں سے سزا صرف 15کو ہوئی اور سزا کا تناسب محض 7 یا 8فیصد ہے تاہم انہیں سزا دینا حکومت کا نہیں عدالت کا کام ہے ۔