پاکستان کا افغانستان کی سیاسی قیادت پر طالبان سے مذاکرات کے لئے اپنائی گئی پارہ پارہ سوچ کو بدلنے پر زور

پاکستان پر الزام تراشی کی بجائے تناز ع کے حل کیلئے سنجیدہ اقدامات کرے ، افغانستان میں سیاسی اتفاق رائے کا فقدان ، ابہام امن عمل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ، ہم چاہتے ہیں کہ قومی یکجہتی کی افغان حکومت ملک میں اپنی رٹ قائم کرے ، 2017 میں ہی سنجیدہ مذاکرات شروع ہو گئے تو افغانستان میں امن قائم ہو جائے گا، تنازع افغانستان کے حل کے لئے فوجی طاقت کے استعمال کے منفی نتائج برآمد،اس سے طالبان کو استحکام ملا ، پاکستان نے بارہا افغان صدر کو یقین دہانی کرائی ہے کہ افغان مخالف عسکریت پسندوں پر زمین تنگ کر دی گئی ہے ، پاکستان نے افغانستان کے ساتھ طویل 26 سو کلومیٹر سرحد پر دہشتگردوں کی نقل و حرکت روکنے کے لئے سیکیورٹی کے اہم اقدامات کئے ہیں ، افغانستان بھی ایساکرے ، پاکستان اور امریکہ افغانستان کے مسئلے کا حل پر امن مذاکرات اور افغانوں کے زیر قیادت امن عمل میں دیکھتے ہیں مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا امریکی نشریاتی ادارے کو خصوصی انٹرویو

بدھ 18 جنوری 2017 23:10

پاکستان کا افغانستان کی سیاسی قیادت پر طالبان سے مذاکرات کے لئے اپنائی ..

واشنگٹن /اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 18 جنوری2017ء) پاکستان نے افغانستان کی سیاسی قیادت پرملک میں قیام امن کے لئے طالبان سے مذاکرات کے لئے اپنائی گئی پارہ پارہ سوچ پر نظرثانی پر زوردیتے ہوئے کہاہے کہ وہ پاکستان پر الزام تراشی کی بجائے تناز ع کے حل کیلئے سنجیدہ اقدامات کرے ، افغانستان میں سیاسی اتفاق رائے کا فقدان اور طالبان سے نمٹنے کے حوالے سے پائے جانے والے ابہام اور قومی سیاست میں فریقین کے درمیان بکھری سوچ امن عمل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ، ہم چاہتے ہیں کہ قومی یکجہتی کی افغان حکومت ملک میں اپنی رٹ قائم کرے ، اگر 2017 میں ہی سنجیدہ مذاکرات شروع ہو جاتے ہیں توہمیں توقع ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو جائے گا، تنازع افغانستان کے حل کے لئے اب تک کئے گئے فوجی طاقت کے استعمال کے کوئی خاص مثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے بلکہ الٹا اس سے طالبان کو استحکام ملا ، طالبان افغانستان کے دارالحکومت کابل اس کے مجموعی حصے یا بڑے شہری علاقے قبضے پر قبضہ نہیں کر سکتے تاہم وہ طویل عرصے تک عسکریت پسندانہ حملے جاری رکھ سکتے ہیں ۔

(جاری ہے)

تاہم افغانستان کے عوام جتنا جلد ممکن ہو امن چاہتے ہیں، پاکستان نے بارہا افغان صدر اشرف غنی کو یقین دہانی کرائی ہے کہ افغان مخالف عسکریت پسندوں پر زمین تنگ کر دی گئی ہے اور وہ سرحدی علاقوں میں چھپتے پھر رہے ہیں، آپریشن ضرب عضب کے تحت شمالی وزیر ستان کو دہشتگردوں سے مکمل پاک کر دیا گیا ،اب آپریشن کلین اپ جاری ہے، پاکستان نے افغانستان کے ساتھ طویل 26 سو کلومیٹر سرحد پر دہشتگردوں کی نقل و حرکت روکنے کے لئے سیکیورٹی کے اہم اقدامات کئے ہیں ، افغانستان بھی ایساکرے ، امریکہ کی نئی انتظامیہ سے اچھی امیدیں وابستہ ہیں ، پاکستان اور امریکہ افغانستان کے مسئلے کا حل پر امن مذاکرات اور افغانوں کے زیر قیادت امن عمل میں دیکھتے ہیں ۔

بدھ کوامریکی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں وزیر اعظم کے مشیربرائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے افغان قیادت پر زور دیا کہ وہ افغانستان سے عسکریت پسندی کے مکمل خاتمے کے لئے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے اپنائی گئی اپنی پارہ پارہ سوچ کا جائزہ لے اور افغانستان کی بدترین صورتحال پر پاکستان پر الزامات تراشی سے گریز کرے۔

سرتاج عزیز نے کہا کہ افغانستان میں سیاسی اتفاق رائے کے فقدان اور طالبان سے نمٹنے کے حوالے سے پائے جانے والے ابہام اور قومی سیاست میں فریقین کے درمیان بکھری سوچ ، افغان حکومت اور طالبان کے درمیان عالمی برادری کی حمایت سے ہونے والے مذاکرات کو روک دیا ہے ۔ افغان قیادت کو اہمیت سمجھ نہیں آرہی کہ وہ طالبان سے عسکریت پسندوں جیسے سلوک کرے یا انہیں دہشتگرد گردانے ۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان کی سیاسی قیادت کی سوچ انتہائی بکھری ہوئی اور پارہ پارہ ہے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ قومی یکجہتی کی افغان حکومت اپنی رٹ قائم کرے اور وہ کامیاب ہو ۔ وہ طالبان اور دیگر گروپوں کو یہ واضح اشارہ دے کہ پوری دنیا یہ چاہتی ہے کہ وہ افغان حکومت سے مذاکرات کریں اور مسئلے کو حل کریں کیونکہ کوئی بھی شخص یہ نہیں چاہتا کہ افغانستان میں لڑائی جاری رہے ۔

انہوں نے کہا کہ افغان حکومت کی واضح سوچ اور پاکستان کے اپنی سرزمین افغانستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے عزم اور عالمی دبائو سے طالبان کو صحیح پیغام بھیجا جا سکتا ہے اور وہ اس سے مذاکرات کی میز پر آ سکتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ میرا یہی خیال ہے کہ وہ ان چیزوں سے بہت زیادہ دبائو میں آجائیں گے اور اگر 2017 میں ہی سنجیدہ مذاکرات شروع ہو جاتے ہیں توہمیں توقع ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو جائے گا ۔

مشیر خارجہ نے کہا کہ تنازع افغانستان کے حل کے لئے اب تک فوجی طاقت کے استعمال کے کوئی خاص مثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے بلکہ الٹا اس سے طالبان مستحکم ہوئے ۔ انہوں نے کہا کہ طالبان افغانستان کے دارالحکومت کابل اس کے مجموعی حصے یا بڑے شہری علاقے قبضے پر قبضہ نہیں کر سکتے تاہم وہ طویل عرصے تک عسکریت پسندانہ حملے جاری رکھ سکتے ہیں ۔ تاہم افغانستان کے عوام جتنا جلد ممکن ہو امن چاہتے ہیں اسی اثناء میں عالمی اتحادی افواج افغانستان کی اس سلسلے میں معاونت کر رہی ہیں کہ طالبان ملک کے بڑے حصے پر قبضہ نہ کر سکیں اور اگر انہوں نے ملک کے بڑے بڑے علاقوں پر قبضہ کر لیا تو وہ مذاکرات پر راضی نہیں ہوں گئے ۔

ایک رپورٹ کے مطابق افغان حکومت کا ملک کے دو تہائی حصے پر کنٹرول ہے جب کہ عسکریت پسند صرف دس فیصد حصے پر ہیں ۔ افغان قیادت کی جانب سے قندہار اور دیگر علاقوں میں ہونے والے بم دھماکوں کے الزامات پاکستان پرعائد کرنے کے ردعمل میں سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان نے بارہا افغان صدر اشرف غنی کو یقین دہانی کرائی ہے کہ افغان مخالف عسکریت پسندوں پر زمین تنگ کر دی گئی ہے اور وہ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں چھپتے پھر رہے ہیں اور زیادہ تر افغانستان میں واپس چلے گئے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ہم انتہائی پر عزم ہیں ۔ دہشتگردی کے خلاف اقدامات کے تحت کیے گئے آپریشن ضرب عضب میں شمالی وزیر ستان کو دہشتگردوں سے مکمل پاک کر دیا گیا ۔ تمام دہشتگردوں کا انفراسٹرکچر مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا تاکہ وہ مزید طاقت کے ساتھ خود کو آپریٹ نہ کر سکیں ۔ جیسا کہ اس پہلے وہ آزادانہ طور پر حملے کرتے تھے تاہم اب وہ بکھر چکے ہیں اور علاقے میں آپریشن کلین اپ جاری ہے ۔

مشیر خارجہ نے کہا کہ پاکستانی حکومت افغانستان کے ساتھ طویل 26 سو کلومیٹر سرحد پر سیکیورٹی بڑھانے کے لئے اہم اقدامات کر رہی ہے ۔ انہوں نے افغانستان کے حکام سے بھی کہا کہ وہ اپنی طرف سے بھی اس طرح کے اقدامات کریں ۔انہوں نے عشروں پرانی آزادانہ سرحد پار نقل و حرکت کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سفر کرنے والوں کو اب جائز شناختی دستاویزات دکھانے کی ضرورت ہے کہ وہ کہاں جانا چاہتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ اس نئی پالیسی سے ہمیں ہر قسم کے افراد کی نقل و حرکت کو مانیٹرنگ کرنے میں مدد ملے گی ۔لہذا یہی شناختی دستاویزی سفر کا عمل سرحد کے دونوں اطراف متعارف کرانا چاہیے تاہم ابھی تک افغانستان نے اپنی طرف سے اس پر عمل درآمد نہیں کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ناپسندیدہ افراد کو افغانستان جانے سے روکنے کا یہی بہترین طریقہ ہے اور ہمارے لیے بھی اپنے اس عزم کو یقینی بنانے کا یہی طریقہ ہے کہ ہم افغانستان کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے دیں ۔

مشیر خارجہ نے نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے اچھی امیدوں کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ خطے خصوصاً میں امن کے مقاصد کے حصول کے لئے روابط کاسلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں نظر آنے والی کرن بہت مثبت اور تعمیری ہو سکتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ افغانستان کے مسئلے کا حل پر امن مذاکرات اور افغانوں کے زیر قیادت امن عمل میں ہے اور اسی طریقے سے آگے بڑھا جاسکتاہے ۔ لہذا ہم مل کر افغانستان کے بحران کا پر امن حل تلاش کرنے کی کوششیں جاری رکھیں گے ۔