پاکستان خوردنی تیل کی کھپت کے لحاظ سے دنیا کا چوتھا اور درآمدات کے لحاظ سے تیسرا بڑا ملک بن گیا

ملائیشیا اور انڈونیشیا پاکستان میں اپنی سرمایہ کاری بڑھائیں، سال 2017 پاکستان کی ترقی کا سال ہوگا، ایس ایم منیر اور زبیر طفیل کا کانفرنس سے خطاب

ہفتہ 21 جنوری 2017 18:42

.کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 جنوری2017ء) خوردنی تیل کی صنعت کے عالمی ماہرین نے پاکستان کو چین، بھارت اور متحدہ عرب امارات کے بعد دنیا کی چوتھی بڑی مارکیٹ قرار دے دیا ہے۔ پاکستان تیل درآمد کرنے والا تیسرا بڑا ملک بن چکا ہے جہاں خوردنی تیل کی امپورٹ، پراسیسنگ اور اسٹوریج کی سہولتوں میں سرمایہ کاری کے مواقع بھی بڑھ رہے ہیں۔

خوردنی تیل کی مقامی صنعت نے حکومت پر زور دیا ہے کہ عوام کو ریلیف دینے کے لیے خوردنی تیل کی درآمد پر عائد ٹیکسوں کو مناسب سطح پرلایا جائے۔ خوردنی تیل کی صنعت میں اب تک 50ارب روپ کی سرمایہ کاری کی جاچکی ہے ملک میں معاشی سرگرمیاں تیز ہونے اور امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے کی وجہ سے خوردنی تیل کی طلب بھی بڑھ رہی ہے اور آئندہ چند سال کے دوران مزید 50ارب روپے کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان ایڈ ایبل کانفرنس(پی ای او سی) 2017کا انعقاد گزشہ روز کراچی ک مقامی ہوٹل میں کیا گیا۔ کانفرنس کا مقصدخوردنی تیل کی عالمی صنعت میں پاکستان کی ممتاز حیثیت اور نمایاں مقام کو تسلیم کرواتے ہوئے اس شعبے میں سرمایہ کاری کے امکانات کو اجاگر کرنا تھا۔کانفرنس میں ملائیشیا، انڈونیشیا، برطانیہ،امریکا اور جرمنی سمیت دیگر ملکوں ک ماہرین اور خوردنی تیل کی مقامی صنعت سے وابستہ افراد کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

تقریب کے مہمان خصوص ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے سی ای او ایس ایم منیر نے نمائش کے انعقاد کو سراہتے ہوئے کہا کہ نمائش بین الاقوامی معیار کے مطابق منعقد کی گئی جس سے پاکستان میں سرمایہ کاری اور بیرونی تجارت بڑھانے کے روشن امکانات کودنیا کے سامنے پیش کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں معاشی اشاریے تیزی سے بہتر ہورہے ہیں جس کا اعتراف عالمی مالیاتی اداروں اور بین الاقوامی جریدوں میں بھی کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سال 2017پاکستان کی ترقی کا سال ثابت ہوگا اس لحاظ سے خوردنی تیل کی کانفرنس کا انعقاد خوش آئند امر ہے ۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ایف پی سی سی آئی کے صدر زبیر طفیل نے کہا کہ چین اور بھارت کی وسیع آبادی اور متحدہ عرب امارات میں شامل ریاستوں کی تعداد کے مقابلے میں پاکستان خوردنی تیل کی فی کس کھپت کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑ املک ہے ۔

انہوں نے پاکستان کو خوردنی تیل برآمد کرنے دالے دو بڑوں ملکوں انڈونیشیا اور ملائیشیا کے سرمایہ کاروں پر زور دیا کہ وہ پاکستان میں اپنی سرمایہ کاری میں اضافہ کریں زبیر طفیل نے دونوں ملکوں کی حکومتوں پر بھی زور دیا کہ وہ توازن تجارت بہتر بنانے کے لیے پاکستانی مصنوعات کو انڈونیشیا اور ملائیشیا کی مارکیٹ میں زیادہ سے زیادہ رسائی فراہم کریں ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں لاجسٹک اور پورٹ سے متعلق سہولتوں کے اعلیٰ معیار کی بدولت پاکستان خطے میں خوردنی تیل کے ٹرانزٹ اور ایکسپوٹ کا مرکز بن کر ابھرے گا۔ پاکستان کے محل وقوع اور بندرگاہوں کے ذریعے خطے ک لینڈ لاک ملکوں کو خوردنی تیل برآمد کیا جاسکتا ہے جن میں افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستیں شامل ہیں۔تقریب سے خطاب اور اپنی پریزنٹیشن میں پاکستان ایڈایبل آئل کانفرنس کے چیف ایگزیکٹیو عبدالرشید جان محمد نے کہا کہ پاکستان خوردنی تیل کی عالمی منڈی میں نمایاں مقام کا حامل ہے پاکستانی صنعت ریفائنریز، گھی او رکوکنگ آئل پلانٹس، اسٹوریج اور بیجوں سے تیل نکالنے والے یونٹس پر مشتمل ہے ۔

کانفرنس میں عالمی ماہرین کی بڑی تعداد میں شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ ایڈیبل کانفرنس کے انعقاد کے مقاصد حاصل ہورہے ہیں۔ سالانہ بنیادوںپر ایڈ ایبل کانفرنس کے انعقاد سے عالمی منڈی میں پاکستان کے مقام اور حیثیت کو تسلیم کروانے میں مدد ملے گی ساتھ ہی پاکستانی سرمایہ کاروں اور صنعت سے وابستہ افراد کو عالمی رجحانات اور ٹیکنالوجی کے بار ے میں آگہی فراہم ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں خوردنی تیل کی سالانہ درآمد 2.6ملین ٹن جبکہ تیل دار بیجوں کی درآمد 2.2ملین ٹن تک پہنچ چکی ہے۔ خوردنی تیل کی طلب پوری کرنے کے لیے درآمدات پر انحصارکم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تیل دار بیجوں کی کاشت میں اضافے کے لیے زرعی شعبے کو معاونت فراہم کی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ خوردنی تیل کی درآمد پر 30فیصد کے لگ بھگ ٹیکس اور ڈیوٹیاں عائد ہیں جن کو مناسب سطح پرلاکر عوام کو قیمتوں میں ریلیف دیا جاسکتا ہے۔

کانفرنس میں برطانوی تحقیقی ادارے LMCانٹرنیشنل کے چیئرمین Dr. James Fryنے پام آئل کی پیداوار پر موسمی اثرات بالخصوص بارشوں کی کمی کے اثرات، انڈونیشیاکی حکومت کی جانب سے بائیو فیول کو دی جانے والی مالی معاونت اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بائیو ڈیزل سے معلق ممکنہ پالیسی کے اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے مستقبل قریب میں پام آئل کی قیمتوں کے بارے میں امکانات سے آگاہ کیا۔

انہوں نے بایا کہ خوردنی تیل کی قیمتوں کا بالواسطہ تعلق خام تیل سے بھی ہے ۔ سال 2017کے دوران پام آئل کی پیداوار اور سپلائی میں بہتری کی امید ہے۔ اس موقع پر امریکی ادارے ConsiliAgraکی منیجنگ ڈائریکٹر Emily Frenchنے بھی خصوصی مقالہ پیش کیا اور دنیا میں تیل دار بیجوں کی پیداوار، غذائی طلب میں اضافے اور اس کی وجہ سے خوردنی تیل کی صنعت پر پڑنے والے اثرات پر روشنی ڈالی۔

کانفرنس سے امریکا کی سویا بین کونسل کے چیف ایگزیکٹیو James Ted Sutter، انڈونیشیا کے ادارے GAPKIکے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر محمد فاضل حسن، جرمن جریدے آئل ورلڈ آئی کے ڈائریکٹر و ایڈیٹر Thomas Mielkeو دیگر ماہرین نے بھی خطاب کیا۔ کانفرنس کے موقع پر ایک تکنیکی مباحثے کا بھی اہتمام کیا گیا تھا جس میں شیخ امجدرشید، شہزاد علی خان، شکیل اشفاق، پرویز حسن خان، زین محمود، عبدالله ذکی، عثمان احمد اور رشید جان محمد نے شرکت کی اور خوردنی تیل کی صنعت کے مختلف شعبوں کو درپیش چیلنجز اور ترقی کے امکانات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

تکنیکی مباحثے کے شرکاء نے کہاکہ جس تیزی سے پاکستان میں خوردنی تیل کی طلب بڑھ رہی ہے اس کے پیش نظر آئندہ چند سال میں خوردنی تیل کے لیے ایک اضافی ٹرمینل کی ضرورت ہوگی، شیخ امجد رشید نے ملائیشیا کی جانب سے ایکسپورٹ پر ٹیکس لگانے پر اسے پاک ملائیشیا آزاد تجارت کے معاہدے کی روح کے منافی قرار دیا۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ ملائیشیا کے ساتھ آزاد تجارت کے معاہدے پر نظر ثانی کی جائے اور پاکستان کے لیے ملائیشیا اور انڈونیشیا سے درآمد ہونے والے خوردنی تیل پر ڈیوٹی اور ٹیکس کی چھوٹ حاصل کی جائے جس طرح پاکستان کی جانب سے ان ملکوں کے ساتھ تجارتی معاہدوں کے تحت انڈونیشیا اور ملائیشیا کی مصنوعات پر دی جارہی ہے۔

دوسری سالانہ ایڈیبل آئل کانفرنس زیرِ اہتمام پاکستان وناسپتی مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (PVMA)، پاکستان ایڈیبل آئل ریفائنرز ایسوسی ایشن (PEORA)، آل پاکستان سولونٹ ایکسٹریکٹر ایسوسی ایشن(APSEA)، پاکستان سوپ مینوفیکچرر ایسوسی ایشن (PSMA)، ملائشین پالم آئل کونسل(MPOC)، ملائشین پالم آئل بورڈ(MPOP) اور انڈونیشین پلانٹیشن اینڈ ریفنرز ایسوسی ایشن(GAPKI)کے اشتراک سے منعقد کی گئی جس میں ملکی و غیرملکی کمپنیوں نے اسٹالز بھی لگائے جہاں پاکستان میں فروخت کی جانے والی مصنوعات کے علاوہ ملائیشیا اور انڈونیشیا کے اداروں کے بارے میں بھی معلومات فراہم کی گئیں جبکہ ٹیکنالوجی اور خدمات فراہم کرنے والی کمپنیوں نے بھی اسٹالز کے ذریعے نئی پیش رفت سے آگہی فراہم کی۔

متعلقہ عنوان :