ٹرمپ سابق صدر جارج بش اور اوباما کی پالیسی اپنانے سے گریز کریں، طالبان کا انتباہ

اگر ٹرمپ بھی سابق امریکی صدور کی پالیسی پر عمل پیرا رہیں گے تو افغانستان میں تشدد کا سلسلہ جاری رہے گا، گزشتہ 16 برس سے جاری افغانستان میں امریکی سربراہی میں اتحادی افواج کی مداخلت کی وجہ سے تباہی، انسانی جانوں کا ضیاع اور اربوں ڈالرز کا نقصان ہوا، امریکی مداخلت اور طاقت کے استعمال سے افغانستان کے لوگوں میں امریکا کا منفی تاثر قائم ہوا اور اس کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا،افغان طالبان کا ڈونلڈ ٹرمپ کے نام پیغام

اتوار 22 جنوری 2017 17:50

ٹرمپ سابق صدر جارج بش اور اوباما کی پالیسی اپنانے سے گریز کریں، طالبان ..

کابل(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 22 جنوری2017ء) افغان طالبان نے نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نام پیغام جاری کرتے ہوئے انہیں خبردار کیا ہے کہ وہ سابق صدر جارج بش اور اوباما کی پالیسی اپنانے سے گریز کریں۔افغان خبر رساں ادارے’’ خاما پریس ‘‘کی رپورٹ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عہدہ صدارت کا حلف اٹھانے کے بعد طالبان نے ان کے نام پیغام جاری کیا۔

اپنے پیغام میں طالبان نے کہا کہ اگر ٹرمپ بھی سابق امریکی صدور براک اوباما اور جارج بش کی پالیسی پر عمل پیرا رہیں گے تو افغانستان میں تشدد کا سلسلہ جاری رہے گا۔طالبان کی جانب سے یہ دعوی بھی کیا گیا کہ گزشتہ 16 برس سے جاری افغانستان میں امریکی سربراہی میں اتحادی افواج کی مداخلت کی وجہ سے تباہی، انسانی جانوں کا ضیاع اور اربوں ڈالرز کا نقصان ہوا۔

(جاری ہے)

طالبان نے یہ بھی کہا کہ امریکی مداخلت اور طاقت کے استعمال سے افغانستان کے لوگوں میں امریکا کا منفی تاثر قائم ہوا اور اس کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا۔واضح رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے تاحال افغانستان اور اس خطے کے حوالے سے اپنی پالیسی کا اعلان نہیں کیا ہے۔8 نومبر کو جب ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدارتی انتخاب میں کامیاب ہوئے تھے تو اس وقت بھی افغان طالبان کی جانب سے بیان جاری کیا گیا تھا جس میں ڈونلڈ ٹرمپ پر زور دیا گیا تھا کہ افغانستان میں جنگ کی ناکامی کے باعث امریکی فوج اور معیشت پر برے اثرات مرتب ہوئے ہیں اور ساتھ ہی مطالبہ کیا تھا کہ افغانستان سے امریکی فوج کو واپس بلا لیا جائے۔

حالانکہ افغانستان کی حکومت نئے امریکی صدر کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پر عزم ہے۔گزشتہ روز ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی صدر کا عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دیتے ہوئے افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ نے کہا تھا کہ ہمیں امید ہے امریکا افغان حکومت کی حمایت جاری رکھے گا۔واضح رہے کہ واضح رہے کہ 11 ستمبر 2001 کو نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے حملے کے بعد امریکا نے افغانستان پر حملے کا آغاز کیا تھا۔

امریکا کی جانب سے ان حملوں کا ذمہ دار عالمی دہشت گرد تنظیم القاعدہ اور اس کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ٹھہرایا گیا، تاہم عدم اور ناکافی ثبوتوں کی روشنی میں ہی سابق امریکی صدر جارج بش نے اسامہ کے میزبان ملک افغانستان پر یلغار کردی، جس کے بعد دہشت گردی کے جن نے پوری دنیا کو لپیٹ میں لے لیا۔ایک عشرے سے زائد جاری رہنے والی جنگ میں شدت پسندوں کے ساتھ ساتھ ہزاروں افغان شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ متعدد بے گھر ہوگئے۔

امریکا نے اسامہ بن لادن کو اپنا اولین دشمن قرار دیا اور ان کی تلاش میں افغانستان میں بے شمار کارروائیاں کیں اور بالآخر مئی 2011 میں امریکا نے اپنے سب سے بڑے دشمن اسامہ بن لادن کو ابیٹ آباد میں ہلاک کرنے کا دعوی کیا۔نائن الیون نے امریکا کی پیشگی حملوں کی پالیسی یعنی 'بش ڈاکٹرائن' کو جنم دیا اور افغانستان ،شمالی کوریا، عراق اور ایران برائی کا محور قرار پائے اور اسی پالیسی کے تحت امریکا نے ان ممالک میں کارروائیوں کا آغاز کیا۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 3ہزار امریکیوں کے بدلے امریکا نے لاکھوں افراد کو ہلاک کردیا، لاکھوں زخمی اور معذور جبکہ ہزاروں گرفتار ہوئے، اس کے علاوہ گوانتانامو اور ابوغریب جیسے بدنام زمانہ عقوبت خانے وجود میں آئے۔