شادی شدہ خاتون زیر کفالت افراد کی تعریف میں نہیں آتی۔ شاہد حامد

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 26 جنوری 2017 13:47

شادی شدہ خاتون زیر کفالت افراد کی تعریف میں نہیں آتی۔ شاہد حامد

ا سلام آباد(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔26جنوری۔2017ء) پاناما کیس میں مریم صفدر کے وکیل شاہد حامد نے کہا ہے کہ شادی شدہ خاتون زیر کفالت افراد کی تعریف میں نہیں آتی۔پاناما کیس کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی بنچ کر رہا ہے۔ سماعت کے دوران مریم صفدر کے وکیل شاہد حامد کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ مریم نواز کے انٹرویو کا ٹراسکرپٹ تیار کر لیا گیا ہے جو عدالت کو فراہم کر دیا جائے گا، مریم نواز نے انٹرویو میں اپنے اوپر لگنے والے تمام الزامات کا جواب دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مریم نواز کے زیر کفالت نہ ہونے پر دلائل دوں گا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 2011 کے ٹیکس فارم میں مریم نواز کو زیر کفالت دکھایا گیا ہے۔

(جاری ہے)

شاہد حامد نے جواب دیا کہ اگر کوئی شادی شدہ خاتون والدین کے ساتھ رہے تو وہ زیر کفالت کے دائرے میں آئے گی لیکن زیر کفالت کی کوئی خاص تعریف نہیں اس میں بزرگ اور بیروزگار افراد کو شامل کیا جاسکتا ہے، زیر کفالت کی تعریف میں بیوی اور نابالغ بچے بھی آتے ہیں اور زیر کفالت کے معاملے پر انکم ٹیکس لاگو ہوتا ہے۔

شاہد حامد نے کہا کہ غیر شادی بیٹی کی ذرائع آمدن نہ ہو تو وہ زیر کفالت ہو گی جس پر جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ انکم ٹیکس قانون میں دیگر کا خانہ زیرکفالت کی کیٹگری ہے، شاہدحامد نے جواب دیا کہ انکم ٹیکس قانون میں مخصوص کیٹگری 2015 میں شامل کی گئی۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ ہم آپ کی معاونت سے قانون کی تشریح کر سکتے ہیں، اپنی اہلیہ اور بچوں کے نام پر جائیداد رکھیں تو کیا وہ بے نامی ہو گی؟قطری شہزادے کی جانب سے 22 دسمبر کو پیش کئے گئے دوسرے خط کی تفصیلات بھی سپریم کورٹ میں پیش کی گئیں، دوسرا خط پہلے والے خط میں اٹھنے والے سوالات کے جواب میں لکھا گیا جس میں کہا گیا کہ حماد بن جاسم کا کاروبار دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے، دبئی اسٹیل مل بینکوں اور دبئی حکومت کے تعاون سے بنائی گئی جبکہ قطر میں کی گئی سرمایہ کاری کیش کی صورت میں کی گئی، سرمایہ کاری کے وقت قطر میں کاروبار کیش کی صورت میں ہی کیا جاتا تھا۔

قطری شہزادے کے خط میں کہا گیا ہے کہ 2005 میں کاروبار کے زمرے میں 80 لاکھ ڈالر بقایا تھے، 80 لاکھ ڈالر کے بقایا جات نیلسن اور نیسکول کے شیئر کی صورت میں ادا کیے گئے۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اگر قانون واضح نہ ہو تو عام ڈکشنری کے معنی ہی استعمال کیے جائیں گے، نیب قانون میں بھی زیر کفالت کی تعریف نہیں کی گئی، ڈکشنری کے مطابق دوسرے پر مکمل انحصار کرنے والا زیر کفالت ہوتا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کاروباری خاندان میں ایک مضبوط آدمی پورے خاندان کو چلاتا ہے، انہوں نے استفسار کیا کہ ہم پورے خاندان کو بلا سکتے ہیں جو اس مضبوط شخص کے زیر کفالت ہیں، بالغ بچے خاندان کے بڑے سے خرچہ لیتے ہیں تو کیا انہیں زیر کفالت تصور کیا جائے۔

متعلقہ عنوان :