فاٹا اصلاحات کمیٹی کی رپورٹ مسترد،جرگہ کا قبائلی عوام کو قومی دھارے میں لانے کیلئے ’’وسیع تر مشاورت‘‘کا مطالبہ

سرکاری کمیٹی نے محدود مشاورت کی تھی،اکثریت نے فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کی مخالفت کی مگر کمیٹی نے اس کے برعکس رپورٹ دی،قبائلی جرگہ نے انسانی حقوق اور جمہوری اصولوں کے مطابق قبائلی عوام کو قانون سازی کاحق دینے کا مطالبہ کیا ہے،اسی طرح فاٹا میں پائیدار امن لانے کیلئے عوام کی حمایت اور تعاون کو ناگزیر قراردیاہے،قبائلی علاقوںکیلئے خواتین یونیورسٹی قائم کرنے،سینیٹ میں قبائلی خواتین و قبائلی اقلیتوں کی نشستیں مختص کرنے کے مطالبے کیے گئے،ایف سی آر کو ختم کرکے قبائلی اقدار اور شرعی اصولوں کے مطابق متبادل نظام لانے کا مطالبہ کیا گیا ، قبائلی عوام اپنی رسم و رواج اور پگڑی کا مکمل تحفظ کریں گے،گو ایف سی آر گو ضروری ہے،فاٹا میں پولیس کلچر لانے والوں کو تھانوں کے قیام پر لگ پتہ جائے گا قبائلی ایجنسیوں کے عمائدین،علما کرام کا پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے زیراہتمام خودمختار جمہوری فاٹا جرگہ سے خطاب

پیر 30 جنوری 2017 21:47

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 30 جنوری2017ء) خودمختار جمہوری فاٹا جرگہ نے سرکاری فاٹا اصلاحات کمیٹی کو نام نہاد قراردیتے ہوئے اس کی رپورٹ کو رد کردیا ہے،جرگہ نے قبائلی عوام کو قومی دھارے میں لانے کیلئے ’’وسیع تر مشاورت‘‘کا مطالبہ کردیاہے اور واضح کیا ہے کہ سرکاری کمیٹی نے محدود مشاورت کی تھی،اکثریت نے فاٹا کو صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کی مخالفت کی تھی مگر کمیٹی نے اس کے برعکس رپورٹ دی،قبائلی جرگہ نے انسانی حقوق اور جمہوری اصولوں کے مطابق قبائلی عوام کو قانون سازی کاحق دینے کا مطالبہ کیا ہے،اسی طرح فاٹا میں پائیدار امن لانے کیلئے عوام کی حمایت اور تعاون کو ناگزیر قراردیاہے،قبائلی علاقوںکیلئے خواتین یونیورسٹی قائم کرنے،سینیٹ میں قبائلی خواتین و قبائلی اقلیتوں کی نشستیں مختص کرنے کے مطالبے بھی کیے گئے،ایف سی آر کو ختم کرکے قبائلی اقدار اور شرعی اصولوں کے مطابق متبادل نظام لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے اور یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ قبائلی عوام اپنی رسم و رواج اور پگڑی کا مکمل تحفظ کریں گے،گو ایف سی آر گو ضروری ہے تاہم فاٹا میں پولیس کلچر لانے والوں کو تھانوں کے قیام پر لگ پتہ جائے گا۔

(جاری ہے)

ان خیالات کااظہار ساتوں قبائلی ایجنسیوں جنوبی و شمالی وزیرستان،خیبرایجنسی،مہمند ایجنسی،باجوڑایجنسی،کرم ایجنسی اور چھ کے چھ ایف آر کے علاقوں کے عمائدین،علماء کرام نے پیر کو حکومتی اتحادی پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے زیراہتمام خودمختار جمہوری فاٹا جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا جرگہ حکومتی اتحادی جماعت کے سربراہ محمود خان اچکزئی کی صدارت میں ہوا۔

جرگہ کے موقع پر ہال قبائلی عمائدین سے کچھا کھچ بھراہواتھا،جرگہ میں قبائلی پارلیمانی رہنما شاہ جی گل آفریدی کو مختلف ایجنسیوں نے جرگوں کی جانب سے قبائل کو سزائیں سنانے پر تنقید کرنے پر شدید مخالفت کا سامناکرناپڑا اور وہ اپنی تقریر کو مختصر کرتے ہوئے جرگہ سے چلے گئے۔جرگوں نے واضح کیا ہے کہ حکومت پاکستان اور ریاستی ادارے فاٹا پر اپنی مرضی کا حل مسلط نہیں کرسکتے،ایف سی آر کو ختم کیا جائے،گورنر قبائلی علاقوں سے نامزد کیا جائے اور سیاسی و جمہوری حقوق کی مرحلہ وار فراہمی کیلئے فاٹا منتخب کونسل قائم کی جائے،اسی کونسل کو گورنر کی تقرری کا اختیار ہونا چاہیے،فاٹا کا الیکشن کمیشن قائم کیا جائے اور منتخب نمائندوں کے تعاون سے بلدیاتی انتخابات منعقد کیے جائیں،فاٹا کے نام پر آنے والی تمام غیرملکی امداد کو قبائلی علاقوں کی تعمیر وترقی پر خرچ کیاجائے،جرگہ سے اپنے خطاب میں وزیرستان کے ملک خان مرجان مسعود نے مطالبہ کیا کہ خودمختار کونسل یا الگ صوبے کا درجہ دیاجائے،ہمیں دوسرا بنگلہ دیش نہ بنایاجائے،ممتاز قبائلی رہنما ملک بہادر شاہ اتماخیل نے کہاکہ سرتاج عزیز اور دیگر چارلوگوں کو فاٹا کے متعلق فیصلوں کا کوئی اختیار حاصل نہیں،ہم اپنے تشخص کو برقراررکھنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کیلئے خودمختار صوبہ چاہتے ہیں اور مرحلہ وار آگے بڑھنے کیلئے قبائل آزاد کونسل قائم کی جائے۔

رکن قومی اسمبلی و شمالی وزیرستان ایجنسی سے ملک نذیراحمدخان نے کہاکہ ہم اپنے فیصلے خودکرناچاہتے ہیں،اپنے اوپرحکمرانی کا اختیارکرنے کا اختیارکسی کو نہ دیا ہے نہ دیں گے۔سابق ایم این اے صاحبزادہ تاج محمد نے کہاکہ فاٹا کی عوام اپنے کھربوں ڈالر وسائل حق حکمرانی کا اختیار اور اپنے متعلق تمام فیصلے خود کرناچاہتے ہیں،اپنامکمل خودمختار صوبہ ہماراحق ہے،سابق وفاقی وزیررکن قومی اسمبلی غازی گلاب جمال نے کہاکہ خیبرپختونخوا خود غریب صوبہ ہے،بنوں،لکی مروت،ٹانک،دیر سمیت اکثریتی ضلع پسماندہ ترین میں شمار ہوتے ہیںفاٹا کو کیسے سنبھال پائیں گے،سابق سینیٹرحافظ رشید نے کہاکہ جو لوگ ہمارے متعلق فیصلے کرنے کا سوچ رہے ہیں انہوں نے فاٹا کو تباہ کیا،ہم وسائل سے مالامال ہیں ہم پر احسان نہ کیاجائے،اپنے وسائل پر اختیار ملتا ہے تو ہرقبائلی کروڑ اور ارب پتی ہوجائے گا،ہم اپنی حکمرانی اور خودمختارصوبہ چاہتے ہیں۔

مہمندایجنسی سے ملک نادرخان نے کہاکہ کس اکثریت سے انضمام کی بات کی جارہی ہے،ہر وہ نظام جو قبائل کی مرضی کے خلاف ہوکبھی ماننے کو تیار نہیں ہیں لہذا ہمیں خود فیصلے کااختیاردیاجائے۔جنوبی وزیرستان سے ملک بادشاہ خان محسود نے کہاکہ جمہوری منتخب فاٹا کونسل چاہتے ہیں،ضم کرنے کی باتیں کرنے والے صرف ایف سی آر کا خاتمہ بتاتے ہیں،ایف سی آر کے ہم بھی مخالف ہیں تاہم اپنے فیصلے خودکرناچاہتے ہیں،محمود خان اچکزئی اور مولانافضل الرحمان کی قیادت میں قبائلی عوام کو فیصلوں کا اختیاردیاجائے۔

ایف آر کوہاٹ سے ملک نائب خان آفریدی نے انکشاف کیا چھ ایف آر میں سے پانچ نے آزاد کونسل یا الگ قبائلی صوبے کا مطالبہ کیا مگر اصلاحات کمیٹی نے رپورٹ میں پانچ کی جگہ ایک شمار کیا ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کہ اکثریت آزاد کونسل چاہتی ہے۔جنوبی وزیرستان ایجنسی سے رکن قومی اسمبلی مولانا جماالدین نے کہاکہ قبائلی علاقوں پر بیرون ملک سے آیا ہوا حل مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،جسے ہم کسی صورت تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں،اس بیرونی حل کے ذریعے قبائلی علاقوں کی حیاء،اقدار اور پگڑی کوختم کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ قبائل کو فیصلوں کا اختیار ہی نہیں دیاگیا،کونساطریقہ تھا جس کے تحت وسیع مشاورت کا دعویٰ کیاگیاہے،انہوں نے کہاکہ پہلے ہمیں گھروں میں بسایاجائے،تعمیرنوکریں اور جوجنگ مسلط کی گئی ہے اس کو ختم کریں اب بھی وسیع پیمانے پر بے یارومددگار قبائلی عوام کیمپوں میں پڑے ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔واضح کردینا چاہتے ہیں کہ قبائل اپنے وسائل اورمعدنیات پر حق ملکیت ملنے تک کسی اور ان تک رسائی نہیں دیں گے،ہمیں قانون بناناآتا ہے جسے اپنی روایات کے مطابق بنایاجائے گا جو ہمیں قانون دینے کی بات کر رہے ہیں انہیں بتادیناچاہتے ہیں کہ ہم ان سے بہتر فاٹا کیلئے قانون بناسکتے ہیں،مولانافضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی ہی فاٹا کے اصل ترجمان ہیں۔

حکمرانوں کا کام تھا کہ انصاف دیتے،ہم بالکل خیبرپختونخوا میں شامل ہونے کو تیار نہیں ہیں۔فاٹا کے پارلیمانی رہنما شاہ جی گل آفریدی نے کہاکہ قبائل کو دربدر کیاگیا،بدامنی کا شکاربنایاگیا،میرا یہ سوال ہے کہ بیت اللہ مسحود،حکیم اللہ مسحود اور منگل باغ جیسے لوگ ہمارے علاقوں میں کیوں پیدا ہوئے کون ان کا ذمہ دار ہے،ریاست نے قبائلی عوام کو انصاف دینے کی ذمہ داری ادانہیں کی جب کہ ان قبائل نے پاکستان کی حفاظت کا فرض ادا کیا ہے،اس وقت سارے اختیارات گورنر ہائوس کے پاس ہیں اور قبائلی علاقوں سے جو آمدن ہوتی ہے اس کی دوفیصد صرف فاٹا میں لگتی ہے اور 98فیصد بیوروکریسی اور وردی والوں پر خرچ ہوجاتی ہے اور بدنام فاٹا کی عوام ہے،کراچی سے چترال تک جوکچھ لے جانا ہو کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی،ہمیں اگر فاٹا میں تابوت بھی لے جانا ہو تو اس کیلئے بھی پرمٹ لیناپڑتاہے۔

انہوں نے کہاکہ میرا سوال ہے کہ 18ویں ترمیم کے موقع پر اس وقت کے قبائلی اراکین پارلیمنٹ نے جب صوبوں کے حقوق کا تعین ہورہاتھا فاٹا کے جمہوری حقوق کیوں نہ لیے،ایک طرف آئین کی شق ایک میں ہم پاکستانی ہیں دوسری طرف ہم پر غلامان شقیںبھی مسلط کی گئیں ہیں۔قبائلی علاقوں میں نہ توسڑکیں بنائی گئیں،نہ بنیادی حقوق کا تحفظ کیاگیا،انہوں نے واضح کیا کہ خیبرپختونخوا ہمیں 50فیصد محاصل قبائلی عوام کی وجہ سے جمع ہوتے ہیں اور پراپرٹی ٹیکس اور ایکسائز میں قبائلیوں کا 50فیصد حصہ ہے مگر خیبرپختونخوا فاٹا کے عوام کو سماجی حقوق دینے میں ناکام رہی ہے۔

جرگوں کی جانب سے مختلف ایجنسیوںمیں سزائیں سنانے کے معاملے پر تنقید کی تو انہیں جرگہ میں شدیدمخالفت کا سامناکرناپڑا بعض جگہوں سے ان کے خلاف نامناسب نعرہ بھی لگایا گیا جس پر وہ اپنی تقریر کو مختصر کرتے ہوئے جرگہ سے چلے گئے۔جرگہ میں مشترکہ اعلامیہ کی منظوری دی گئی جو صدر جرگہ محمود خان اچکزئی نے پڑھا۔…(خ م+اع)