عالمی مجلس تحفظ ختم نبوتؐ کے تحت آل پارٹیز تحفظ ناموس رسالت ؐ کانفرنس نے 5نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کردیا ، مطالبات تسلیم نہ ہونے کی صورت میں ملک گیراحتجاجی تحریک کی دھمکی

مطالبات میں توہین رسالت کی سزا کے قانون کے خلاف سرگرمیوں کا نوٹس لینے،چناب نگر میں متوازی ریاست اور متوازی عدالتیں ختم کرنے،قادیانی چینلز کی نشریات کا نوٹس ،قادیانی تعلیمی ادارے واپس نہ کرنے،چکوال میں قادیانیوں کی فائرنگ سے شہیدوزخمی ہونے والے خاندانوں کی درخواست کے مطابق مقدمہ درج کرناشامل توہین رسالت قانون میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کی سخت مزاحمت کی جائے گی ، اے پی سی کا مشترکہ اعلامیہ تحریک کے لائحہ عمل اور مطالبات پیش کرنے کیلئے مولانافضل الرحمان کی سربراہی میں 15رکنی کمیٹی قائم

بدھ 1 فروری 2017 18:13

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 01 فروری2017ء) عالمی مجلس تحفظ ختم نبوتؐ کے تحت آل پارٹیز تحفظ ناموس رسالت ؐ کانفرنس نے پانچ نکاتی مطالبات کا اعلان کرتے ہوئے ایک ماہ میں منظور نہ ہونے کی صورت میں ملک گیراحتجاجی تحریک چلانے کی دھمکی دے دی ہے،ان مطالبات میں توہین رسالت کی سزا کے قانون کے خلاف سرگرمیوں کا نوٹس لینے،چناب نگر میں متوازی ریاست اور متوازی عدالتیں ختم کرنے،قادیانی چینلز کی نشریات کا نوٹس اور آئین و قانون کے منافی نشریات پر پابندی لگانے،قادیانی تعلیمی ادارے انہیں واپس نہ کرنے،چکوال میں قادیانیوں کی فائرنگ سے شہیدوزخمی ہونے والے خاندانوں کی درخواست کے مطابق مقدمہ درج کرنا شامل ہیں،دینی و سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر اعلان کیا ہے کہ توہین رسالت کی سزا کے قانون میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کی سخت مزاحمت کی جائے گی۔

(جاری ہے)

اس امر کااعلان کانفرنس کے مشترکہ اعلامیے میں کیاگیا ،تحریک کے لائحہ عمل اور مطالبات پیش کرنے کیلئے مولانافضل الرحمان کی سربراہی میںنمائندہ15رکنی کمیٹی قائم کردی گئی ہے جس میں امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹرسراج الحق،مسلم لیگ ن کے چیئرمین سینیٹر راجہ ظفرالحق،مرکزی جمعیت اہلحدیث کے سربراہ پروفیسر ساجدمیر،دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین مولانا سمیع الحق،جمعیت علماء پاکستان کے صدر صاحبزادہ ابوالخیرمحمدزبیر،وفاق المدارس کے سیکرٹری جنرل قاری محمد حفیط جالندھری،اعجاز الحق،مولانا اللہ وسایا،پیر اعجاز ہاشمی،چوہدری پرویز الہی،سیدکفیل بخاری،حافظ عاکف سعید،مولانازاہد الراشدی،پیرمعین الدین گوریجہ شامل ہیں۔

مشترکہ اعلامیہ جمعیت علماء اسلام ف کے سربراہ مولانافضل الرحمان نے پڑھا،جس میں کہا گیا ہے بدھ یکم فروری کو آل پارٹیز تحفظ ناموس رسالت ؐ کانفرنس اسلام آبادمیں ہوئی۔ ملک بھر کی دینی سیاسی جماعتوں کے سربراہان اورتمام مکاتب فکر کے اکابر علمائے کرام اور مشائح عظام کا مشترکہ اجتماع ایک بار پھر اس حقیقت کو دہرا رہا ہے کہ مملکت خداد اد پاکستان ، اللہ اور اس کے رسول مقبول ، خاتم النبیین ؐ کے نام پر حاصل کی گئی ہے۔

اور یہ دنیا کی واحد ریاست ہے جو اسلامی نظریہ پر وجود میں آئی ہے۔ لیکن مغربی دنیا اور ان کی این جی اوز ایک منظم سازش کے ذریعے سے پاکستان کے اسلامی تشخص کو مجروح کرنے کے در پے ہیں ۔اعلامیے میں واضح کیا گیا ہے وطن عزیز میں تمام انبیا کرام علیہم السلام اور بالخصوص آنحضرت ؐ کے عزت و ناموس کو آئینی و قانونی تحفظ فراہم کیا گیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے نے اس پر مہر تصدیق ثبت کی ۔

لیکن ہر پانچ ،چھ سال کے بعد اس ایمانی اور شرعی اور آئینی قانون میں ترمیم یا تبدیلی کی قرارداد لانے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ 295۔سی کے قانون میں ترمیم یامقدمہ کے اندراج کے طریقہ کار میں تبدیلی اور سزا میں کمی کے اعلان سے عاشقان رسول ؐ اور اسلامیان پاکستان کو اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے ۔ افسوس کی بات ہے کہ مغرب کو خوش کرنے کے لیے سندھ اسمبلی میں اسلام قبول کرنے کی عمر اٹھارہ سال مقرر کرنے کا قانون منظور کیا جاتا ہے۔

اور پھر علماء اور اسلامیان پاکستان کے دباؤ پر قانون واپس کر لیا گیا۔ لیکن سینیٹ میں اعلامیہ کے مطابق پیپلز پارٹی کے ہی ایک سینیٹر کی جانب سے ایسی مذموم کاوشوں پر یہ اجتماع گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایسے ہتھکنڈوں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اعلان کرتا ہے کہ ہر ایسی مذموم سازشوں کا ہر محاذ پر مقابلہ کیا جائے گا یہ اجتماع حکومت سے بھی مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ایسی سازشوں پر نظر رکھے اور ایوان بالا اور ایوان زیریں میں توہین رسالت ؐ کے قانون میں کوئی تبدیلی نہ لانے کا دو ٹوک اعلان کرے امت مسلمہ کا یہ عقیدہ ہے کہ رحمت دو عالم ؐ اللہ رب العزت کے آخری نبی ہیں مرحوم بھٹو دو ر میں قومی اسمبلی نے اس بنیادی عقیدہ کے باغی قادیانیوں کا دین اسلام سے متصادم مؤقف سننے کے بعد انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔

مشترکہ اعلامیہ میں واضح کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت سمیت ملک کی تمام عدالتوں نے اپنے فیصلوں میں اس قانون کو مبنی بر حق قرار دیا لیکن قادیانی گروہ نے آئین پاکستان سے انحراف اور عدالتوں کے فیصلوں سے بغاوت کرتے ہوئے اپنے آپ کو مسلم کہلوانے مصر ہے۔قادیانیوں نے چناب نگر میں اپنی عدالتیں قائم کر رکھی ہیں۔ اپنے اسٹاپ پیپر شائع کرتے ہیں۔

ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کی رٹ قائم کی جائے۔ اس گروہ کی آئین شکنی کا نوٹس لیا جائے اور انہیں آئین کا پابند بنایا جائے۔ حال ہی میں قادیانی ڈاکٹر عبدالسلام کے نام پر قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس کو منسوب کیا گیا۔ حالانکہ کے ڈاکٹر عبدالسلام نے پاکستان کو لعنتی ملک کہا ہے۔ یہ نمائندہ اجتماع اس اقدام پر شدید اضطراب کا اظہار کرتے ہوئے اس غلط فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کرتا ہے۔

آئین کی رو سے قادیانی خود کو مسلمان قرار نہیں دے سکتے۔ اور نہ ہی وہ قادیانیت کو اسلام کہہ سکتے ہیں۔ آئین میں ان پر واضح پابندیاں ہیں۔ لیکن قادیانی چینلز پاکستان کے آئین کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ وزارت اطلاعات اور پیمرا قادیانی چینلز کی اسلام مخالف مہم اور آئین کی بغاوت کا نوٹس لے۔اور ان نشریات پر پابندی عائد کرے۔مشترکہ اعلامیہ میں مزید کہا گیا ہے پاکستان کے سابق وزیراعظم مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے ملک بھر کے تمام تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لیا لیکن قادیانی تعلیمی اداروں کو واپس کرنے کے اقدامات کی خبریں گاہے گاہے سنی جا رہی ہیں۔

حکومتوں نے اربوں روپے ان اداروں پر خرچ کیے ہیں۔ اور ان اداروں میں پچانوے (۵۹) فیصد عملہ اور زیر تعلیم طلبہ مسلمان ہیں۔ قادیانیوں کو تعلیمی ادارے واپس کر کے گویا نوجوان نسل کو قادیانیوں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے مترادف ہو گا حکومت ایسا کوئی غلط قدم اٹھانے سے باز رہے ۔ اس سال 12 ربیع الاوّل کو دوالمیال ضلع چکوال میں میلاد النبی ؐ کے جلوس پر قادیانیوں نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ایک مسلمان شہید اور کئی مسلمان زخمی ہوئے۔

لیکن قادیانیوںکو قانون شکنی پر سزا دینے کی بجائے مسلمانوں پر جھوٹے مقدمات درج کر کے انہیں پابند سلاسل کر دیا گیا۔ اور مختلف ذرائع سے اب دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ مسلمان قادیانیوں کے خلاف درج کرائے گئے مقدمات واپس لیں۔ یہ اجتماع پاکستان اسلامی تشخص اور قومی خودمختاری کے خلاف بڑھتے ہوئے مسلسل عالمی دباؤ اور بین الاقوامی اداروں کی یلغار پر تشویش و اضطراب کا اظہار کرتا ہے اور دینی حلقوں کو توجہ دلانا چاہتا ہے کہ پاکستان کی اسلامی شناخت اور قومی خود محتاری کے معاملات کو سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی بجائے دینی قوتوں کو خود کردار ادا کرنا ہو گا۔

آج کا اجتماع اس بات پر زور دیتا ہے کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوالمیال کے قادیانی گروہ کے مجرم افراد کو فی الفور گرفتار کر کے قانون کے مطابق سزا دے۔ اور بے گناہ مسلمانوں کو رہا کرے۔ مشترکہ اعلامیہ کے ذریعے خبردار کرتے ہوئے کہا گیا ہے ۔مولانافضل الرحمان نے مشترکہ اعلامیہ کے ذریعے پانچ نکاتی مطالبات پیش کرتے ہوئے واضح کیا یہ اجتماع حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ295C کے قانون کے خلاف سرگرمیوں کا نوٹس لیا جائے اور اس قانون کے بہرحال تحفظ کا دو ٹوک اعلان کیا جائے۔

چناب نگر میں’’ ریاست در ریاست ‘‘ کا ماحول ختم کیا جائے ، حکومت کی دستوری اور قانونی رٹ بحال کرنے کے ٹھوس اقدامات کیے جائیں اور متوازی عدالتیں ختم کر کے ملک کے قانونی نظام کی بالادستی بحال کی جائے۔قادیانی چینلز کی نشریات کا نوٹس لیا جائے اور ملک کے دستور اور قانون کے تقاضوں کے منافی نشریات پر پابندی لگائی جائے۔قادیانی تعلیمی ادارے ، انہیں واپس کرنے کی پالیسی عوامی جذبات اور ملک کی نظریاتی اساس کے منافی ہے۔

حکومت اس طرز عمل پر نظر ثانی کرے اور قوم کو اعتماد میں لے۔دوالمیال چکوال میں قادیانیوں کی فائرنگ سے شہید اور زخمی ہونے والے مظلوموں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ علاقہ کے مسلمانوں کے مطالبات کو فوری طور پر پورا کیا جائے، شہید کے بارے میں ایف آئی آر درج کی جائے، بے گناہ مسلمانوں کو رہا کیا جائے اور مسلمانوں کے خلاف جانبدارانہ رویہ اختیار کرنے والے حکام کے خلاف کارروائی کی جائے۔

یہ اجتماع حکومت پر واضح کر دینا چاہتا ہے کہ یہ مطالبات رسمی اور وقتی نہیں ہیں پوری قوم کے جذبات کے آئینہ دار ہیں انہیں جلد از جلد منظور کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس لیے اگر ایک ماہ تک یہ مطالبات منظور نہ کیے گئے اور حکومتی طرز عمل میں واضح تبدیلی دکھائی نہ دی تو آل پارٹیز ناموس رسالت کانفرنس کی طرف سے ملک گیر تحریک کا آغاز کیا جائے گا۔

جس کے انتظامات کے لیے درج ذیل راہنماؤں پر مشتمل رابطہ کمیٹی کا اعلان کیا جارہا ہے۔مشترکہ اعلامیہ پر تمام متذکرہ قائدین نے دستخط کیے ہیں اور کانفرنس میز کی توثیق کردی گئی ہے۔مولانافضل الرحمان نے مشترکہ اعلامیہ مکمل پڑھ کر سنایا تو چیئرمین پاکستان مسلم لیگ (ن) راجہ ظفرالحق نے آل پارٹیز کانفرنس کو یقین دہانی کرائی کہ عقیدہ ختم نبوت ؐ کے حوالے سے جن جذبات کا اظہار اس کانفرنس میں کیاگیا ہے وہ ہی جذبات محمد نوازشریف کے ہیں اور یہ جذبات شک و شبہہ سے بالاتر ہیں۔

انہوں نے کہاکہ کسی شک کی بنیاد پر تحریک شروع نہیں کرنی چاہیے اور حقوق کے حوالے سے جدوجہد ہوگی میں سب کے ساتھ ہوں۔اس موقع پر مولانافضل الرحمان نے ان سے 15رکنی رابطہ کمیٹی کی وزیراعظم محمد نوازشریف سے ملاقات کی یقین دہانی حاصل کرنے کی کوشش کی تاہم سینیٹ میں قائد ایوان راجہ ظفرالحق اس کی کوئی یقین دہانی نہ کرواسکے،کانفرنس میں پاکستان کے ممتاز عالم دین مولاناعبدالرزاق سکندر نے دعا کروائی۔…(خ م+اع)