دینی جماعتوں کے قائدین نے نیشنل ایکشن پلان کو امتیازی قراردیتے ہوئے ان پر نظرثانی کا مطالبہ کردیا

اس پلان کے تحت مدارس مذہب اور مسالک کو نشانہ بنایاگیاہے‘،دینی جماعتوںکاالزام مولانافضل الرحمان،سراج الحق اور دیگر کا اے پی سی سے خطاب

بدھ 1 فروری 2017 18:14

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 01 فروری2017ء) دینی جماعتوں کے قائدین نے نیشنل ایکشن پلان کو امتیازی قراردیتے ہوئے ان پر نظرثانی کا مطالبہ کردیاہے،دینی جماعتوں نے الزام عائد کیا ہے کہ اس پلان کے تحت مدارس مذہب اور مسالک کو نشانہ بنایاگیاہے،ایکشن پلان پرنظرثانی کیلئے نمائندہ علماء کمیٹی سے وفاقی اور صوبائی حکومتیں مذاکرات کریں۔

ان خیالات کااظہار جمعیت علماء اسلام ف کے سربراہ مولانافضل الرحمان،جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹرسراج الحق،مرکزی جمعیت اہلحدیث کے سربراہ پروفیسر ساجدمیر،دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین مولانا سمیع الحق،جمعیت علماء پاکستان کے صدر صاحبزادہ ابوالخیرمحمدزبیر،وفاق المدارس کے سیکرٹری جنرل قاری محمد حفیط جالندھری،عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے سیکرٹری جنرل مولانا اللہ وسایا اور دیگر نے بدھ کو اسلام آباد میں آل پارٹیز تحفظ ناموس رسالت ؐ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

مولانافضل الرحمان نے واضح کیا کہ ملک میں کسی بھی صورت میں توہین رسالت کی سزا کے قانون میں زرا برابر بھی تبدیلی نہیں لانے دیں گے اور اس حوالے سے ملک بھر میں سرگرمیاں ہوں گی،ہم چاہتے ہیں کہ اس معاملے پر وزیراعظم محمد نوازشریف سے بات چیت ہو اور چیئرمین مسلم لیگ(ن) راجہ ظفرالحق کو اس ضمن میں نمائندہ رابطہ کمیٹی کی وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات کروانی چاہیے،امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ اپنے جماعت الدعوة کے سربراہ حافظ سعید کی نظربندی کو مسترد کرتے ہیں،یہ نظربندی امریکی دبائو پر کی گئی ہے،پاکستان میں حافظ سعید کے خلاف کوئی بھی مقدمہ نہیں ہے،لہذا پابندی ختم اور ان کی جماعت کی سرگرمیوں کو بحال کیا جائے۔

انہوں نے واضح کیا کہ حرمین شرمین کے تحفظ کیلئے ہم سب قربان ہوجائیں گے،ٹرمپ اپنی حدود میں رہیں اور عالم اسلام کو دھمکیاں دینا چھوڑدیں۔سینیٹر سراج الحق کے مطابق نیشنل ایکشن پلان کو مدارس اور علماء کرام کے خلاف استعمال کیاجارہاہے انہوں نے نیشنل ایکشن پلان پرنظرثانی کا مطالبہ کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے اس معاملے پر نمائندہ علماء کمیٹی سے مذاکرات کا مطالبہ کیا ہے۔

انہوں نے تعلیمی نصاب میں ناموس رسالتؐ کے مضامین شامل کیے جائیں۔پاکستان مسلم لیگ ن کے چیئرمین سینیٹر راجہ ظفرالحق نے ماضی میں اسلام آباد میں سی ڈی اے کی طرف سے قادیانیوں کو مسجد کے نام پر پلاٹ دینے کی مزاحمت اور اس بارے میں سی ڈی اے کے خلاف دائر مقدمے کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیاجس کی وجہ سے عدالت نے راجہ ظفرالحق کی پٹیشن کودرست قراردیتے ہوئے سی ڈی او قادیانیوں کو پلاٹ دینے سے روک دیاتھا۔

راجہ ظفرالحق نے بتایا کہ اس حوالے سے انہوں نے بھارتی پٹنہ ہائیکورٹ کا ایک مقدمے کے فیصلہ سے بھی اپنی عدالت کوآگاہ کیا جس میں بھارتی ہائیکورٹ نے واضح طور پر فیصلہ دیا تھا کہ مسجد مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے کسی اور کو مسجد کے نام پر جگہ نہیں دی جاسکتی،ماتحت عدالت نے راجہ ظفرالحق کی پٹیشن کے حق میں فیصلہ کیا جسے سپریم کورٹ نے بھی برقراررکھا۔

راجہ ظفرالحق نے 1960کی دہائی میں پاکستان کیاہم مرکزی ریاستی عہدیدار ایم ایم احمد جوکہ مرزاغلام احمد کے نواسے تھے کے حسن قریشی کے خلاف مقدمے کی فوجی عدالت میں پیروی کے بارے میں بھی آگاہ کیا،حسن قریشی سی ڈی اے میں الیکٹریشن تھا اور بنگلہ دیش کی جلاوطن حکومت کی قادیانیوں کی تنظیم کی جانب سے حمایت اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ پر ایم ایم احمد سے سخت گلہ شکوہ کیا جس پر ایم ایم احمد ان کے ساتھ سختی سے پیش آئے،حسن قریشی نے ایم ایم عابد پر چھری سے حملہ کردیاتھا،فوجی عدالت میں اس پر مقدمہ چلایاگیا اور راجہ ظفرالحق حسن قریشی کو بری کروانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

راجہ ظفرالحق نے توہین رسالتؐ کی سزا کی قانون سازی کی تاریخ سے بھی آگاہ کیا اور بتایا کہ 1974میں آئین کے تحت قادیانیوں کو غیرمسلم توقراردے دیاگیا تھا مگر اس آئینی شق کے حوالے سے طویل عرصہ تک قانون سازی نہ ہوسکی تھی جس پر وہ 1984میں اس وقت کے فوجی صدرجنرل ضیاء الحق سے ملے ایوان صدر میں پاکستان کے جیدعلماء کرام کا وفد بھی گیااور میں نے قانون کا مسودہ پیش کردیا۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین مولاناسمیع الحق نے واضح کیا کہ امریکی دبائو پر حافظ سعید کو نظربند کیاگیا ہے،رونے دھونے سے کچھ نہیں ہوگا،تمام دینی جماعتوں کو پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے دھرنا دینا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ امریکہ اپنی امداد قادیانیوں کے حوالے سے مشروط کررہاہے،اسلام اس کے نشانے پر ہے اور ٹرمپ اور مودی کو خوش کرنے کیلئے حافظ سعید کو نظربندکیاگیاہے،ہم اگر آج نہ اٹھے تو سب کی باری آسکتی ہے۔

صاحبزادہ ابوالخیر محمد نے واضح کیا کہ سینیٹ کی جو قائمہ کمیٹی توہین رسالتؐ کی سزا کے قانون میں جوسوچ بچارکررہی ہے اس سے گریز کرے اس کی ان کوششوں کی وجہ سے قوم بے چین ہے،موجودہ حکومت بیرونی دبائو پر پاکستان کے اسلامی تشخص کو ختم کرکے اسے سیکولرریاست بناناچاہتی ہے۔ہمیں اٹھناہوگا۔سینیٹر پروفیسرساجدمیر نے کہاکہ آگے برھنے کا لائحہ سامنے آنا چاہیے۔

انہوں نے کہاکہ توہین رسالتؐ کرنے والوں کی شرعی سزا صرف اور صرف موت ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی،فرقہ وارانہ بنیادوں پر اس قانون کے استعمال کوروکنے کیلئے ملک بھر میں اضلاع میں علماء کی امن کمیٹیاں قائم کی جائیں۔علامہ عارف واحدی نے دعویٰ کیا کہ اسرائیلی سرپرستی میں بہائیوں کا ایک وفد پاکستان کادورہ کرچکاہے،پاکستان کے اسلامی تشخص کے خلاف سازشیں ہورہی ہے۔…(خ م+اع)

متعلقہ عنوان :