ْپانامہ کیس عدالت میں زیر سماعت ہے ، عدالت عظمیٰ جو بھی فیصلہ سنائے سب کو قبول کرنا چاہیے

پارلیمنٹ سمیت تمام اداروں کو مضبوط بنا کر ہی جمہوریت کو استحکام اور ملک کو حقیقی ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے جے یو آئی (ف) کے سربراہ اور قومی کشمیر کمیٹی کے چیئر مین مولانا فضل الرحمن کی میڈیا سے گفتگو

بدھ 8 فروری 2017 16:28

فیصل آباد۔8 فروری(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 08 فروری2017ء) جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور قومی کشمیر کمیٹی کے چیئر مین مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ بعض عناصر پانامہ کیس کی آڑ میں جمہوریت کی بساط لپیٹنے کیلئے کوشاں ہیں مگر انہیں اپنے ان عزا ئم میں کامیابی نہیں ہو سکتی اس لئے انہیں غیر جمہوری اقدامات سے گریز کرنا چاہیے اور چونکہ پانامہ کیس عدالت میں زیر سماعت ہے اس لئے اس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد حقائق و واقعات اور شواہد و دلائل سمیت تمام دستیاب ثبوتوں کی روشنی میں عدالت عظمیٰ جو بھی فیصلہ سنائے وہ سب کو قبول کرنا چاہیے،جلسے جلوسوں اور سڑکوں پر آکر عدالتوں کی بات کرنے والوں کو عدالتی فیصلے کا انتظار کرنا ہو گا۔

میڈیا کے ذریعے عدالتوں یا رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کے ساتھ ساتھ دھمکی آمیز رویوں سے بھی اجتناب برتنا چاہیے کیونکہ اس سے افراتفری کی فضاء پیدا ہونے کا خدشہ ہے جو کسی بھی صورت ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ۔

(جاری ہے)

پارلیمنٹ سمیت تمام اداروں کو مضبوط بنا کر ہی جمہوریت کو استحکام اور ملک کو حقیقی ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے، مزید برآں بلدیاتی اداروں کو اختیارات اور وسائل ملنے سے کئی عوامی مسائل مقامی سطح پر حل ہو سکیں گے اس لئے یہ منتخب بلدیاتی نمائندوں کا بھی فرض ہے کہ وہ عوامی مسائل کے حل اور مقامی سطح پر شہریوں کو ضروری سہولیات کی فراہمی سمیت اپنی تما م صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے علاقائی تعمیر و ترقی کی جانب اپنی توجہ مبذول رکھیں۔

بدھ کے روز سابق رکن بلوچستان اسمبلی ، ممتاز سیاسی و سماجی شخصیت اور صنعتکار حاجی گل محمد دمڑ کی وفات پر اظہار افسوس کیلئے فیصل آباد آمد اور مرحوم کے اہلخانہ سے اظہار تعزیت کے بعد میڈیا سے بات چیت کے دوران انہوںنے کہا کہ عمران خان عدالت کے باہر خود پانامہ کیس کے بارے میں اپنے ذاتی فیصلے سناتے پھر رہے ہیں جو کہ سیاسی نابالغی کا ثبوت ہونے کے ساتھ ساتھ عدالت پر دبائو ڈالنے کے مترادف اقدام ہے کیونکہ جو معاملہ عدالت میں چل رہا ہو اس پر ذاتی فیصلے نہیں سنائے جا سکتے ۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ پہلے عمران خان نے کہا کہ کمیشن بنائو اور دھمکی دی کہ اگر کمیشن نہ بنایا تو وہ سڑکوں پر رہیں گے مگر جب حکومت نے کمیشن بنا نے کی بات کی تو پھر انہوںنے کہنا شروع کر دیا کہ کمیشن نہیں بننا چاہیے۔انہوںنے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ عدالتوں کو آزادانہ فیصلے کرنے دینا چاہیے۔ انہوںنے کہاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ بنا دیا گیا ہے حالانکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخاب مسلم دنیا کی مخالفت کی بنا پر جیتا ہے۔

انہوںنے کہا کہ اسلام اور امت مسلمہ پر حملوں کے باعث اسلامی ممالک اس کی زد میں آئے ہیں لیکن امریکی عدالت کا مختلف ممالک کے شہریوں کے امریکہ داخل ہونے پر پابندی کے خلاف فیصلہ احسن اقدام ہے جس سے یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ وہاں انسانی حقوق کی کسی قسم کی خلاف ورزی ممکن نہ ہو سکے گی ۔ انہوںنے کہا کہ برما ،کشمیر ،شام اور لیبیا میں مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا ہے جس پر امت مسلمہ کو سوچ و بچار کرتے ہوئے اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

انہوںنے کہا کہ وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ 2001ء میں اسلامی ملکوں کے سربراہوں نے دہشت گردی کے خلاف جو منصوبہ بنایا وہ اسلامی دنیا کے خلاف ثابت ہوا لہٰذا اسلامی دنیا کے حکمرانوں کو اس پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کو الگ صوبہ بنانے کے سوال پر مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ فاٹا قبائل پاکستان کا نہایت محترم حصہ ہے کیونکہ یہاں کے لوگوں نے تحریک پاکستان میں بھی بہت قربانیاں دیں اور اس کے بعد سے اب تک وہ 70سال سے ہماری سرحدوں کی حفاظت کر رہے ہیں اسلئے قبائلی عوام کی رائے کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں ہونا چاہیے۔

انہوںنے کہا کہ فاٹا کے ار کان اسمبلی کی مشاورت کے بغیر قبائل کے بارے میں فیصلے کنفیوژن پیدا کر دیتے ہیں اس لئے ان کو آن بورڈ رکھ کر وہاں کے عوام کی خواہشات کے مطابق فیصلے پر عملدر آمد سے وفاق کو مضبوط بنانے میں مدد ملے گی۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کے بارے میں اظہار خیا ل کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ مذکورہ ہنگامہ ملک کے سب سے منظم جمہوری ادارے کے وقار کے خلاف تھا جس سے دنیا بھر میں ہماری جگ ہنسائی ہو ئی ا سلئے تمام جمہوری سیاسی قوتوں کو فہم و فراست اور برد باری و تدبر کا ثبوت دینا ہو گا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوںنے کہا کہ سیفران میں ہونے والی میٹنگز اور حکومت سے ہونے والی بات چیت کے بارے میں متضاد رپورٹیں جاری ہوتی ہیں جس سے ابہام اور شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں اور مشترکہ فیصلہ سازی میں بھی مشکل درپیش آتی ہے ۔کشمیر کمیٹی کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے مولانا نے کہا کہ قومی کشمیر کمیٹی ایک علامتی ادارہ ہے مگر اس کے باوجود یہ کمیٹی مختلف ملکی و بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر اپنا دو ٹوک موقف پیش کرتی ہے ۔

انہوںنے کہا کہ بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان سے لے کر مولانا فضل الرحمن تک صرف دو نام ہی میڈیا کو یاد ہیںاس کے علاوہ کسی کو کسی کا پتہ نہیں ۔ انہوںنے کہا کہ میڈیا صرف ان کی سیاسی حیثیت پر تبصرے کرتا ہے۔ کشمیری حریت پسند نوجوان رہنماء برہان الدین وانی کی شہادت کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوںنے کہا کہ مذکورہ نوجوان رہنماء کی شہادت نے تحریک آزادی کشمیر کی جدو جہد میں نئی روح پھونک دی ہے جبکہ کشمیری عوام کا جوش و ولولہ کم ہونے کی بجائے مزید بڑھا ہے۔

انہوںنے کہا کہ کشمیر یوں کی رائے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد سے ہی مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوںنے کہا کہ ریاست کا فرض ہے کہ وہ عوام کو امن اور تحفظ و سلامتی فراہم کرے۔ انہوںنے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان ہو یا 21ویں ترمیم اس ضمن میں صرف ایک قانون ہونا چاہیے۔ انہوںنے کہا کہ قانون میں کسی بھی قسم کا امتیاز اس کی روح کے منافی اقدام ہے اس لئے قانون کو عام یا خاص نہیں بلکہ صرف قانون بنانے اور اس پر عملدر آمد سے ہی مسائل کا حل ممکن بنایا جا سکتا ہے۔

چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوںنے کہا کہ سی پیک ملکی اقتصادی و معاشی ترقی میں انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو گا تاہم اس میں تمام صوبوں کو بلا امتیاز حصہ ملنا چاہیے تاکہ کسی صوبے میں احساس محرومی پیدا نہ ہو اور وہ بھی ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا موزوں کردار ادا کر سکیں۔اس موقع پر جے یو آئی (ف) کے مقامی عہدیداران اور کارکنان بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔