ْداعش گروپ جنگ زدہ علاقوں میں دفاعی حکمت عملی اختیا ر کرنے پر مجبور ہوگیا ، اقوام متحدہ

دعش کی طرف سے شام و عراق کے لیے غیر ملکی جنگجوں کی بھرتی کا عمل قابل ذکر حد تک سست ہو گیا ہی اور جنگجو تیزی سے میدان جنگ چھوڑ کر جا رہے ہیں،آئی ایس آئی ایس فوجی دبا ئو کا سامنا کرنے کیلئے کئی طریقے اختیار کر رہی ہے،رپورٹ

بدھ 8 فروری 2017 16:55

نیویارک (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 08 فروری2017ء) اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ نام نہاد شدت پسند گروپ داعش کے خلاف کئی جنگ زدہ علاقوں میں ایک ساتھ شروع ہونے والی فوجی کارروائیوں کے سامنے یہ گروپ ٹھہر نہیں سکا اور اب وہ دفاعی حکمت عملی اختیار کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بلجیئم اور ترکی میں ہوائی اڈوں پر ہوئے حالیہ حملوں کا ذکر کرتے ہوئے متنبہ کیا گیا کہ شہری ہوا بازی کے شعبے کے لیے اب بھی خطرہ زیادہ ہے۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق شدت پسند گروپ داعش اور القاعدہ سے متعلق اپنی ششماہی رپورٹ میں اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ داعش کی طرف سے شام و عراق کے لیے غیر ملکی جنگجوں کی بھرتی کا عمل "قابل ذکر حد تک سست ہو گیا ہی" اور جنگجو تیزی سے میدان جنگ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔

(جاری ہے)

اقوام متحدہ کے سیاسی امور کے سربراہ جیفری فیلٹمین نے سلامتی کونسل کو ایک بریفنگ کے دوران بتایا کہ آئی ایس آئی ایل (داعش)فوجی دبا ئو کا سامنا کرنے کے لیے کئی طریقے اختیار کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ شدت پسند گروپ جنگجوں کو بھرتی کرنے اور مواصلاتی رابطوں کے لیے کئی درپردہ طریقے اختیار کر رہا ہے۔انہوں نے کہا اگرچہ داعش کے ذرائع آمدن اور اس کے زیر کنٹرول علاقے میں کمی آ رہی ہے تاہم ان کے بقول اب بھی "داعش کے پاس اتنے مالی وسائل ہیں کہ وہ لڑائی جاری رکھ سکتی ہے۔تاہم اقوام متحدہ کے رپورٹ میں بلجیئم اور ترکی میں ہوائی اڈوں پر ہوئے حالیہ حملوں کا ذکر کرتے ہوئے متنبہ کیا گیا کہ ''شہری ہوا بازی کے شعبے کے لیے اب بھی خطرہ زیادہ ہے۔

رپورٹ میں ان ملکوں کو بھی متنبہ کیا گیا کہ جن کے شہری داعش کے ساتھ مل کر لڑنے کے بعد اپنے وطن واپس آ رہے ہیں "ان میں سے زیادہ تر (اب بھی) داعش کے ںطریہ سے گہری وابستگی رکھتے ہیں اور جب وہ بالآخر واپس آئیں گے تو وہ ایک اہم خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔یہ رپورٹ یورپ، شمالی افریقہ اور مغربی افریقہ میں شدت پسند گروپ کی موجودگی کا احاطہ کرتی ہے۔

لیبیا میں ایک فوجی کارروائی کے بعد سرت شہر میں داعش کو اس کے ایک مضبوط گڑھ سے بے دخل کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے، جو شام اور عراق کے باہر اس شدت پسند گروپ کا سب سے اہم گڑھ تھا۔فیٹلمن خبردار کیا کہ لیبیا اور اس کے ہمسایہ ملکوں کے لیے اس شدت پسند گروپ کا خطرہ اب بھی موجود ہے۔رپورٹ میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ داعش کے پاس لیبیا میں کئی سو سے لے کر لگ بھگ 3,000 جنگجو موجود ہیں اور وہ اب ملک کے دیگر علاقوں میں منتقل ہو گئے ہیں۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ داعش نے مغربی افریقہ اور شمال مغربی افریقہ میں اپنی موجودگی میں اضافہ کر دیا ہے اور اس کے بوکوحرام جیسے حامی گروپ جن کے پاس ہزاروں جنگجو ہیں وہ بھی ایک شدید خطرہ ہے۔دوسری طرف چار ماہ قبل جاری ہونے والے اقوام متحدہ کے رپورٹ کے بعد تازہ رپورٹ میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ دہشت گروں نے مغربی یورپ میں کوئی "بڑا اور پیچیدہ حملہ" نہیں کیا ہے۔

رپورٹ میں قیاس آرائی کی گئی ہے کہ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں کئی جنگ زدہ علاقوں میں اس کی مالی وسائل کا کم ہونا اور اس کے ساتھ اس کی جنگجوں کے لیے شورش زدہ علاقوں سے یورپ کی طرف منتقل ہونے کی راہ میں درپیش مشکلات ہو سکتی ہیں۔اس کے علاوہ کئی ملکوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے کئی موثر اقدامات کیے ہیں۔