مولانا فضل الرحمان کا کشمیری وحدت کے موثر پیغام کیلئے کشمیر کمیٹی کا اجلاس گلگت بلتستان میں بلانے کا اعلان

اجلاس میں کشمیری قائدین کو مدعو کیا جائے گا، داخلی خودمختاری سے متعلق گلگت بلتستان کے موجودہ سٹیٹس کی وجہ سے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں دوریاں بڑھی ہیں پارلیمانی وفو د میں کشمیر کی نمائندگی کو یقینی بنانے کی سفارش کر دی گئی ہے،کشمیر پالیسی پر مشاورت کیلئے تمام شراکت داروں میں قریبی اور بہتر رابطوں پر اتفاق رائے ہو گیا ہے،چیئرمین کشمیر کمیٹی کا اے پی سی سے خطاب

پیر 13 فروری 2017 19:59

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 13 فروری2017ء) چیئرمین خصوصی کشمیر کمیٹی مولانا فضل الرحمان نے کشمیری وحدت کے موثر پیغام کیلئے کشمیر کمیٹی کا اجلاس گلگت بلتستان میں بلانے کا اعلان کردیا ہے ،اجلاس میں کشمیری قائدین کو مدعو کیا جائے گا،انہوں نے واضح کیا ہے کہ داخلی خودمختاری سے متعلق گلگت بلتستان کے موجودہ سٹیٹس کی وجہ سے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں دوریاں بڑھی ہیں ، پارلیمانی وفو د میں کشمیر کی نمائندگی کو یقینی بنانے کی سفارش کر دی گئی ہے،کشمیر پالیسی پر مشاورت کیلئے تمام شراکت داروں میں قریبی اور بہتر رابطوں پر اتفاق رائے ہو گیا ہے ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو اسلام آباد میں مسئلہ کشمیر پر آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

کانفرنس میں مختلف جماعتوں کے رہنمائوں نے شرکت کی ۔ پاکستان پیپلزپارٹی کا اعلیٰ سطح کا وفد کانفرنس میں شریک تھا۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ حکومت پاکستان کو کہا جائے گا کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی حیثیت کے حوالے سے ایسے اقدامات سے گریز کیا جائیجن کا رائے شماری پر اثرانداز ہونے کا خدشہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ ہے ، سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے فیصلے موجود ہیں ،کوئی ایسا اقدام نہیں ہونا چاہیے جس سے ووٹ کے تناسب پر حرف آئے ۔انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے نئے سٹیٹس کی وجہ سے ان دونوں علاقوں میں دوریاں آئی ہیں اور اسی سٹیٹس کے حوالے سے میں خود بھی کشمیری رہنمائوں کو مطمئن نہیں کر سکا ہوں ، صورتحال دوریوں کا باعث بن رہی ہے ، ہم نے آل پارٹیز کانفرنس میں گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ کو مدعو کیا تھا مگر عین وقت پر وہ اس کانفرنس میں نہیں آئے ۔

کشمیر کمیٹی کا آئندہ اجلاس گلگت بلتستان میں ہوگا، وہاں کشمیر کی قیادت کو لے جائیں گے ، بعض اوقات حکومت کے کچھ اقدامات توڑ کا سبب بنتے ہیں جبکہ ہم جوڑ کیلئے کام کر رہے ہیں ۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر کشمیر کمیٹی ،وزارت خارجہ اور وزارت امور کشمیر میں قریبی رابطوں کو اتفاق ہوا ہے اس حوالے سے طریقہ کار وضع کیا جا رہا ہے کہ جب بھی کشمیر پالیسی میں کوئی پیش رفت ہوگی تو وزارت خارجہ پارلیمنٹ کو آگاہ کرنے کی پابند ہوگی اسی طرح پارلیمنٹ کی سفارشات سے حکومت کو آگاہ کرنے کا طریقہ کار وضع کیا جا رہا ہے ۔

بھارتی فلموں کی نمائش پر مستقل پابندی کی سفارش کر چکے ہیں اور یہ بھی کہا ہے کہ باہر جانے والے پارلیمانی وفود میں آزاد کشمیر کی نمائندگی کو بھی یقینی بنایا جائے ۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ کشمیرکے موضوع پر اجتماعات کا سلسلہ کبھی رکا نہیں،یہ اجتماع درحقیقت کشمیر کاز کو آگے بڑھانے کے لئے ہے، تمام اکابرین کی یہاں موجودگی مسئلہ کشمیر پر یکسوئی کی علامت ہے،70 سال اس مسئلہ کو بیت چکے ہیں،اس دوران مسئلہ کشمیر مختلف نشیب وفراز کا شکار رہا۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ بھارت کشمیریوں کو مایوس کرنے کے لئے اس مسئلہ کو طول دیتا رہا،مسئلہ کشمیر پر بھارتی پالیسی ناکام رہی،بھارتی پالیسی کے خلاف کشمیریوں نے مسلسل جدوجہد کے تحت مایوسی کو امید میں پیدا کردیا،نائین الیون کے واقعے کے بعد عالمی سطح پر دہشتگردی کی ایک ترجیح پالیسی سے آزادی کی تحریکیں متاثر ہوئیں،ائین الیون کے بعد بھارت نے کشمیر کی جہدوجہد آزادی کی تحریک کو دہشتگردی قرار دیا،نائین الیون کے بعد پاکستان دہشتگردی کا شکار رہا۔

انہوں نے کہا کہ صورتحال یہ تھی اقوام متحدہ میں پاکستان کشمیر پر قراردادیں نہ پیش کرسکا، دنیا میں چین کے اقتصادی ویڑن کو فروغ ملا، سی پیک کی بدولت 2030 تک پاکستان عالمی معاشی قوت بن جائیگا،سی پیک سے پاکستان کو دفاعی طاقت بھی ملی ہے،بھارت نے اگر جنگ کا سوچا تو پاکستان تنہا نہیں ہوگا، سی پیک کی بدولت 36 ممالک پاکستان کے ساتھ ہونگے،سی پیک کو ناکام کرنے کے لئے بھارت جان بوجھ کر خطے میں اشتعال پھیلا رہا ہے،پاکستان زمہ داری کا مظاہرہ کررہا ہیتھوڑی سی غلطی خطے کو جنگ میں دھکیل سکتی ہے۔

مولانا فضل الرحمن نے کانفرنس میں اعلامیہ پڑھا ،25نکات پر مشتمل اس اعلامیہ میں کشمیریوں کو استصواب رائے دینے ، کشمیری شہداء کے خاندانوں کے ساتھ یکجہتی ، سات لاکھ سے زائد بھارتی فوج کی بے دخلی ، انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں کی شدید الفاظ میں مذمت، غیر قانونی نظربندیوں اور گمشدگیوں کا نوٹس لینے ، سید علی گیلانی ، یاسین ملک ، میرواعظ عمر فاروق کی مسلسل نظر بندیوں اور گھر پر محصور کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے ۔

اعلامیہ میں مقبوضہ کشمیر میں 60ہزار سے زائد اجتماعی قبریں دریافت ہونے کو بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے ناپاک عزائم پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر سے تمام کالے قوانین واپس لینے ، اقوام متحدہ ، او آئی سی اور دیگر فیکٹ فائنڈنگ مشنز کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے رسائی دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔

ویٹو پاورز رکھنے والے ممالک سے بھی مداخلت کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔ اعلامیہ میں واضح کیا گیاہے کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کی آزادی کیلئے ان گنت قربانیاں جلد ثمر آور ہوں گی اور واضح کیا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں یکطرفہ تبدیلی کو کسی طور قبول نہیں کیا جائے گا ۔ حافظ محمد سعید کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے ان کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے حوالے سے کوئی ایسا اقدام یا فیصلہ نہ کیا جائے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی نفی اور کشمیر پر بنیاد ی موقف کی کمزوری کا باعث بنے ۔

کانفرنس میں امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے مطالبہ کیا کہ تحریک آزادی کشمیر کیلئے پاکستان کے بجٹ میں فنڈز مختص کئے جائیں ، مسئلہ کشمیر پر حکومت پاکستان روڈ میپ کا اعلان کرے ۔ کانفرنس میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری بھی شریک ہوئے ، سابق چیئرمین سینیٹ نیئر حسین بخاری نے وفد کے ہمراہ پارٹی کی نمائندگی کی ۔ (اع)

متعلقہ عنوان :