پارلیمنٹ کی مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکین پر مشتمل خصوصی کمیٹی نے رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن بنانے کی منظوری دیدی

بل کو منظوری کیلئے پہلے سینیٹ اور بعد میں قومی اسمبلی میں پیش کیا جائیگا ،ْمجوزہ مسودے کے تحت رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن بنایا جائے گا جو مکمل خود مختار بھی ہوگا ،ْتمام ادارے کمیشن کو ہر وہ معلومات فراہم کرنے کے پابند ہوں گے، جو کمیشن کو درکار ہوگی ،ْ رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن 3 ارکان پر مشتمل ہوگا ،ْ تقرری وزیر اعظم کریں گے بل کے تحت اس معلومات تک بھی رسائی کے لیے اپیل کی جاسکے گی، جس کو استثنیٰ حاصل ہوگا ،ْفرحت اللہ بابر قومی سلامتی ،قومی مفاد اور خارجہ تعلقات سے متعلق قومی مفاد سے متعلق حساس معلومات کو عام نہیں کیاجاسکے گا ،ْمریم اور نگزیب

منگل 14 فروری 2017 17:44

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 فروری2017ء) پارلیمنٹ کی مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکین پر مشتمل خصوصی کمیٹی نے رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن بنانے کی منظوری دیدی۔رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن بنانے کی منظوری سینیٹ کے چیئرمین کی جانب سے تشکیل دی گئی پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی نے دی جس میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان شامل تھے۔

کمیٹی کے چیئرمین حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر فرحت اللہ بابر ہیں جبکہ کمیٹی میں شامل دیگر پارلیمنٹرینز میں مسلم لیگ (ن) کی رکن پارلیمنٹ اور وزیر مملکت اطلاعات ونشریات مریم اورنگزیب ،ْسابق وفاقی وزیر سینیٹر پرویز رشید، متحدہ قومی موومنٹ کی رکن پارلیمان خوش بخت شجاعت ،ْپاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے شبلی فراز اور دیگر شامل ہیں۔

(جاری ہے)

خصوصی کمیٹی کو یہ ٹاسک دیا گیا تھا کہ وہ رائٹ ٹو انفارمیشن بل کا جائزہ لے کر کمیشن بنانے سے متعلق لائحہ عمل تیار کرے۔کمیٹی کے اجلاس میں رائٹ ٹوانفارمیشن بل کے مسودے کی تمام شقوں پرترتیب وار بحث کے بعد اس کی متفقہ منظوری دی گئی۔رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن کا بل حکومت کی جانب سے پیش کیا گیا ،ْاب اس بل کو منظوری کیلئے پہلے سینیٹ اور بعد میں قومی اسمبلی میں پیش کیا جائیگا ،ْمجوزہ مسودے کے تحت رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن بنایا جائے گا جو مکمل خود مختار بھی ہوگا، اس کمیشن کو ملک کے تمام آئینی، قانونی، سیکیورٹی اور انتظامی اداروں تک رسائی حاصل ہوگی۔

تمام ادارے کمیشن کو ہر وہ معلومات فراہم کرنے کے پابند ہوں گے، جو کمیشن کو درکار ہوگی ،ْکمیشن ہر اس پاکستانی فرد کو ہر وہ معلومات فراہم کرنے کی پابند ہوگا جس کی اس فرد کو ضرورت ہوگی۔مجوزہ مسودے کے تحت رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن 3 ارکان پر مشتمل ہوگا ،ْ جن کی تقرری وزیر اعظم کریں گے، جب کہ اس کا سربراہ چیف انفارمیشن افسر ہوگا۔کمیشن کا ایک رکن عدلیہ، ایک بیوروکریسی اور ایک رکن سول سوسائٹی سے لیا جائے گا ،ْکمیشن کے تمام ارکان 65 سال سے کم عمر کے ہوں گے۔

کمیشن ارکان کو ہٹانے کا اختیار قومی اسمبلی و سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں کے پاس ہوگا ،ْمجوزہ مسودے کے مطابق رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن کا ریکارڈ جان بوجھ کر ضائع کرنے میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کاوروائی کی جاسکے گی، جب کہ وہ تمام ریکارڈ جو 20 سال سے زیادہ پرانا ہوگا ،ْاس پر کمیشن کے قانون کا اطلاق نہیں ہوگا، مگر یہ ریکارڈ بہر صورت منظر عام پر آئے گا۔

مسودے میں کہا گیا کہ کمیشن کسی بھی لاپتہ شخص سے متعلق معلومات کی درخواست پر 3 دن میں تحریری طور پر معلومات فراہم کرنے کا پابند ہوگا۔اجلاس کے بعد رائٹ ٹو انفارمیشن بل کی منظوری کو انسانی حقوق سے متعلق بڑی پیش رفت قرار دیتے ہوئے کمیٹی کے چیئرمین فرحت اللہ بابر نے بتایا کہ اس بل سے عام آدمی کو معلومات تک زیادہ سے زیادہ رسائی حاصل ہوگی، بل کے تحت اس معلومات تک بھی رسائی کے لیے اپیل کی جاسکے گی، جس کو استثنیٰ حاصل ہوگا۔

فرحت اللہ بابر نے کہاکہ قومی سلامتی کے نام پر بہت ساری معلومات شہریوں کو مہیا نہیں کی جارہی تھی ،ْکسی دستاویز پر حساس اور خفیہ لکھ کر اسے پبلک نہیں کیا جا سکتا تھا۔پیپلز پارٹی سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ رائٹ ٹو انفارمیشن بل کے تحت کسی معلومات کو استثنیٰ دینے کیلئے افسران اور عہدیداروں کو تین کام کرنا ہوں گے۔ان کے مطابق بل کے تحت اب مجاز افسر تحریری طور پر بتائیگا کہ اس معلومات کو کیوں استثنیٰ دیا گیا، مجاز افسر قومی سلامتی اور قومی مفاد کے جواز اور وجوہات بتانے کا پابند ہوگا، اگر کسی سیکیورٹی کے ادارے میں بھی کرپشن ہوئی تو اس طرح کی معلومات کو روکا نہیں جا سکے گا۔

ان کے مطابق رائٹ ٹو انفارمیشن بل لاپتہ افراد سے متعلق معاملات میں مدد گار ثابت ہوگا۔فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ اب بنیادی انسانی حقوق سے متعلق کسی معلومات کو روکا نہیں جاسکے گا، کسی بھی شخص کو عام معلومات حاصل کرنے میں ایک ماہ ،ْ بنیادی انسانی حقوق کی معلومات حاصل کرنے میں صرف 3 دن لگیں گے۔ میڈیا سے گفتگو ککرتے ہوئے وزیرمملکت اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا کہ قومی سلامتی ،قومی مفاد اور خارجہ تعلقات سے متعلق قومی مفاد سے متعلق حساس معلومات کو عام نہیں کیاجاسکے گا،اگر کوئی کمرشل ونیچر ہے جس سے قومی مفاد کو خدشات لاحق نہ ہوں اس کو عام کیا جاسکیگا۔

بل کو پارلیمنٹ کے آئندہ سیشن میں منظوری کیلئے پیش کیاجائیگا۔وزیرمملکت اطلاعات نے کہا کہ انفارمیشن کمیشن کا ایک رکن عدلیہ ایک بیوروکریسی اور ایک سول سوسائٹی سے لیا جائیگا۔ کمیشن کے کسی رکن کی عمر 65 سال سے زائد نہیں ہوگی ،ْکمیشن کے ممبران کو ہٹانے کا اختیار قومی اسمبلی اور سینٹ کی قائمہ کمیٹیوں کے پاس ہوگا۔انفارمیشن کمیشن کے ممبران کی تقرری اور اختیارات اور جان بوجھ کر ریکارڈ کو ضائع کرنے کے حوالے تعزیراتی کارروائی ہوسکے۔

انہوں نے کہا کہ قومی اداروں کا20 سال پرانا ریکارڈ بہر صورت منظر عام پر آئیگا ،ْبل کے تحت کسی بھی ادارے میں بدعنوانی اور قواعد کی خلاف ورزی بارے اس ادارے سے وابستہ کوئی بھی شخص نشاندہی کرسکے گا اورنشاندہی کرنے والے شخص کو قانونی تحفظ حاصل ہوگا اور اس کے خلاف قانونی کارروائی نہیں ہوسکے گی ۔