وزیر اعلیٰ سندھ کا آصف زرداری کے مشورے اور ہدایت پر سیہون بم دھماکے میں شہید ہیڈ کانسٹیبل کے ورثا کو 10ملین روپے بطور معاوضہ دینے کا فیصلہ

ورثا میں سے ایک شخص کو نوکری اور دیگر سہولیات فراہم کی جائینگی

منگل 21 فروری 2017 03:11

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 21 فروری2017ء) وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے سابق صدر آصف علی زرداری کے مشورے اور ہدایت پر سیہون بم دھماکے میں شہید ہونے والے ہیڈ کانسٹیبل کے ورثا کو 10ملین روپے بطور معاوضہ دینے کا فیصلہ کیا ہے اور ورثا میں سے ایک شخص کو نوکری اور دیگر سہولیات بھی فراہم کی جائینگی۔ اس بات کا فیصلہ سابق صدر آصف علی زرداری کی وزیراعلیٰ ہائوس میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے ساتھ منعقدہ اجلاس میں کیا گیا۔

اجلاس میں صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر سکندر میندھرو، چیف سیکریٹری سندھ رضوان میمن، آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ، ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی کراچی ثناء اللہ عباسی ، ایڈیشنل آئی جی کراچی مشاق مہر، کمشنر کراچی اعجاز علی خان، کمشنر حیدرآباد قاضی شاہد پرویز، ڈی آئی جی حیدر آباد خادم رند اور دیگر سینئر افسران نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

سابق صدر آصف علی زرداری نے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ پر زور دیا کہ وہ لعل شہباز قلندر کے مزار پر ہونے والے بم دھماکے میں جاں بحق ہونے والے ہیڈ کانسٹیبل عبدالعلیم کے لئے 10ملین روپے کے مالی معاوضے اور ورثا کے لئے دیگر سہولیات دینے کا اعلان کریں۔

انہوں نے کہا کہ یہ جاں بحق ہیڈ کانسٹیبل کانسٹیبل کے لئے صرف معاوضہ ہی نہیں ہے بلکہ تمام پولیس فورس کے لئے ایک واضح پیغام ہے کہ انکی حکومت انکے خاندان کو تنہا نہیں چھوڑے گی اور انکی ا پنے فرض کی ادائیگی کے دوران جان کی قربانی کی صورت میں انکے ورثا کی ہر طرح سے مدد کی جائیگی۔ آئی جی سندھ پولیس نے سابق صدر کو پریزینٹیشن دیتے ہوئے کہا کہ بم دھماکہ 16فروری بروز جمعرات شام 7بجے کے قریب ہوا اس وقت مقبرے کے کمپائونڈ کے اندر تقریباً4000سے زائد زائرین موجود تھے دھماکے کے نتیجے میں 90معصوم لوگ جاں بحق ہوئے اور 351زخمی ہوئے انہوں نے کہا کہ مزار کو فرانزک ٹیم نے سیل کر دیا تھا اور تحقیقات اور سرچ کے لئے کراچی سے خصوصی ٹیمیں بھیج دی گئی تھی ۔

اے ڈی خواجہ نے کہا کہ محکمہ انسداد دہشت گردی نے تحقیقات کی اور جئیو فنسنگ ڈیٹا حاصل کیا۔ انہوں نے کہا کہ بم ڈسپوزل اسکواڈ نے اپنی رپورٹ دی جس میں بتایا گیا کہ دھماکہ میں 7/8کلو گرام آتش گیر مواد اور لیڈ (سیسے کے ٹکڑی) نائن ایم ایم کے خالی کارٹیجیز اور بال بیرنگ استعمال کئے گئے جنکو تحویل میں لے لیا گیا اور انہوں نے کہا کہ بال بیرنگ اور لیڈ (سیسے کے ٹکڑی) کے باعث زیادہ انسانی جانوں کا نقصان ہوا اور یہ ایک خودکش حملہ تھا۔

آئی جی سندھ پولیس نے واقعہ کی بعد میں ہونے والی تحقیقات کے بارے میں کہا کہ ڈیڈ باڈیز کے فنگر پرنٹس جمع کئے گئے اور جائے وقوع سے انسانی اعضاء جمع کر کے انہیں ڈی این اے ٹیسٹ کے لئے بھیجا گیا اور جائے وقوع پر پائے گئے موبائل فونز کے ٹکڑوں کو بھی تحویل میں لیا گیا اور سی سی ٹی وی اور موبائل فوٹیجیز اور امیجیزکو تجزیہ اور تحقیقات کے لئے حاصل کیا گیا ۔

انہوں نے کہا کہ مشتبہ خود کش بمبار کی شناخت ہو چکی ہے۔ چیف سیکریٹری رضوان میمن نے کہا کہ سندھ میں صوفیوں کے 700مزارات ہیں پولیس نے محکمہ اوقاف کی مشاورت سے انہیں سیکیورٹی فراہم کی ہے مگر چند ایشوز ہیں جس میں زیادہ تر مزارات چھوٹے ہیں اور وہاں پر کوئی چاردیواری نہیں ہے اور عمارتوں کے نزدیگ تجاوزات ہیں اور متعدد غیر نشاندہی کے داخلی اور خارجی پوائنٹس ہیں اور کوئی پارکنگ کی سہولیات نہیں ہیں اور باڈی سرچ کرنے /لیڈی باڈی سرچر کے بھی خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں ۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ انہوں پولیس ، ضلعی انتظامیہ ، محکمہ اوقاف کے ساتھ متعدد اجلاس منعقد کیئے ہیں جس میں ان تمام مسائل کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ سابق صدر نے کہا کہ چند واضح علاقے مثلاء بلوچستان اور پنجاب کے ساتھ سرحدی پوائنٹس ہیں جہاں پر سخت چیکنگ کا میکنیزم ہونا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ وہ اضلاع اور علاقے جہاں دہشت گردوں کے سہولت کار رہتے ہیں انہیں آہنی ہاتھوں سے کچلا جائے۔

اس پر وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ صوبہ سندھ صوفیوں اور پرامن لوگوں کی سرزمین ہے اور مجھے یہ کہتے ہوئے فخر محسوس ہو رہا ہے کہ سندھ سے ایک بھی خود کش نہیں پایا گیا ہے مگر یہ خود کش دیگر علاقوں اور ممالک سے آتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ انکے سہولت کار چند اضلاع سے سامنے آئے ہیں جہاں پر انکی حکومت نے آپریشن کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ انہوں نے ایک تفصیلی پلان ترتیب دیا ہے جس کے تحت وہ وفاقی حکومت سے درخواست کرینگے کہ وہ بلوچستان باالخصوص وادھ، مستونگ ، جھل مگسی ، خضدار اور چند دیگر علاقوں میں آپریشن کرے ۔

انہوں نے کہا کہ یہ بہت اہم ہے اور یہ ایجنسیز کی رپورٹس کی روشنی میں بتایا جا رہا ہے ۔ سید مراد علی شاہ نے اپنے پارٹی چیف کو بتایا کہ انہوں نے وفاقی حکومت کو 94مدارس پر مشتمل ایک فہرست بھیجی تھی کہ وہ ان کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھیں مگر وفاقی حکومت نے اس پر کوئی کاروائی نہیں کی۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ وہ مدارس کے خلاف نہیں ہیں جہاں پر مذہبی تعلیم دی جارہی ہے بلکہ وہ ملک کے ان مدارس کے خلاف ہیں جہاں پر دہشت گردی کو فروغ دینے کے لئے تعلیم دی جاتی ہے اور دہشت گردوں کو سہولت فراہم کی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ ہماری زمین پر ہمارے لوگوں کو ہلاک کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے آبائو اجداد نے بھی ایک مدرسہ سندھ مدرسہ قائم کیا تھا جہاں پر بابائے قوم محمد علی جناح نے تعلیم حاصل کی ۔ انہوں نے کہا کہ ہم اسی قسم کے مدارس کو فروغ دینا چاہتے ہیں ۔ سابق صدر نے وزیراعلیٰ سندھ پر زور دیا کہ وہ صوبہ سندھ میں رہنے والے قانونی اور غیر قانونی افغانیوں کے مسئلے کو وفاقی حکومت کے سامنے اٹھائیں اور انہیں صوبے اور ملک سے نکالنے کے لئے انتظامات کو یقینی بنائیں ۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں انکے ہاتھوں بہت زیادہ تکالیف اور مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ وزیراعلیٰ سندھ نے سابق صدر آصف علی زرداری کو بتایا کہ انہوں نے ملیر تا جامشور، حیدرآباد ، دادو بیلٹ ، سکھر تا لاڑکانہ ، گھوٹکی اور چند دیگر علاقوں میں آپریشن شروع کر دیا ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ چند قوتیں پاکستان کو کمزور کرنے کے در پر ہیں مگر وہ انہیں اس مذموم کوشش میں کامیاب ہونے نہیں دینگے۔

آصف علی زرداری نے وزیراعلیٰ سندھ کو ہدایت کی کہ وہ سندھ پولیس کو مستحکم کریں اور نہیں جدید تربیت ، ہتھیار وآلات، بجٹ فراہم کریں اور انکے معیار زندگی کو بھی بہتر بنائیں اور ایک سمارٹ سٹی بھی قائم کی جائے ۔ کراچی شہر میں ایک "سمارٹ سٹی "کا منصوبہ لازمی ہونا چاہیے جہاں پر 8میگا پکسل کے سی سی ٹی وی کیمر ے ہونے چاہیے جنہیں سٹیٹ آٖف آرٹ کنٹرول روم کے ذریعے براہ راست کنٹرول کیا جائے۔

اجلا س میں تمام اہم مزارت کے اطراف سے تجاوزات کو ہٹانے کا بھی فیصلہ کیا گیا اور مزاروں کے قریب زمین جس میں شاہ عبدالطیف بھٹائی ، لعل شہباز قلندر، سچل سرمست ، شاہ عقیق اور دیگر کے مزارات کے قریب زمین اگر وہ نجی ملکیت بھی ہے تو اسے خرید کر مزارات کو توسیع دی جائے اور سیکیورٹی کے لئے واضح ا سپیس فراہم کیا جائے۔ #