نیب اور ایف بی آر نے پانامہ کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں،سراج الحق

سپریم کورٹ میں سوال و جواب سے ثابت ہوتا ہے کہ نیب اور ایف بی آر نے 100 فیصد سیاسی فیصلے کئے ہیں، پوری قوم احتساب کے لئے سپریم کورٹ کی پشت پر کھڑی ہے، امیر جماعت اسلامی کی سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو

منگل 21 فروری 2017 20:11

نیب اور ایف بی آر نے پانامہ کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں،سراج ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 فروری2017ء) امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ نیب اور ایف بی آر نے پانامہ کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں،سپریم کورٹ میں سوال و جواب سے ثابت ہوتا ہے کہ نیب اور ایف بی آر نے 100 فیصد سیاسی فیصلے کئے ہیں، تمام ادارے فیصلے دیتے وقت حکومت کی آنکھوں کو دیکھتے ہیں کہ حکومت کا موڈ کیا ہے،کیا جرائم اور گناہوں پر پردہ ڈالنے اور چشم پوشی کرنے والے ادارے اسی طرح ان جرائم میں ملوث نہیں ہیں امیدہے کہ پانامہ سکینڈل کا فیصلہ عوام کے حق میں اورکرپشن کے خلاف ہو گااس پاکستان کرپشن فری ملک بن جائے گا۔

ان خیالات کا اظہار سراج الحق نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ نیب اور ایف بی آر کو آج سپریم کورٹ نے بلایا تھا۔

(جاری ہے)

آج ان کے سپریم کورٹ میں سوال و جواب سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے 100 فیصد سیاسی فیصلے کئے ہیں۔ ان اداروں نے صرف غریبوں کا احتساب کیا ہے۔ کبھی بڑوں اور حکمران طبقہ کا احتساب نہیں کیا۔ نیب اور ایف بی آر نے پانامہ کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کی ہیں۔

قوم ان کو 100 فیصد مراعات دے رہی ہے مگر یہ اپنے فرائض پورے نہیں کر رہے۔ نیب اور ایف بی آر عوام کے حقوق کی حفاظت کر رہی ہے۔ پانامہ لیکس آنے کے بعد اتنا عرصہ گزر گیا ہے مگر یہ ابھی تک معلومات جمع کر رہے ہیں۔ عدالت میں نیب اور ایف بی آر نے اقرار کیا کہ وہ ان ایکشن ہیں، ایکشن میں نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آٹھ، نو ماہ بعد بھی نیب کا ادارہ ایکشن کی بجائے ان ایکشن میں ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت والے دن اصل فیصلے ہوں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے قومی اسمبلی میں جو بل پیش کیا تھا۔ اس میں ہمارا یہی موقف تھا کہ نیب چیئرمین کی تقرری جب تک وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کرتا ہے، اس وقت تک یہ ادارہ انصاف اس لئے نہیں کرے گا کہ کوئی بھی اپنی اس اتھارٹی کے خلاف فیصلہ نہیں کر سکتا جو اس کی تقرری کا اختیار رکھتا ہے۔

لہٰذا نیب چیئرمین کی تقرری کا اختیار وزیراعظم کی اور قائد حزب اختلاف سے لینا ہو گا۔ اس کے لئے مناسب ادارہ سپریم کورٹ کا چیف جسٹس، ہائیکورٹ اسلام آباد سمیت چاروں صوبائی ہائیکورٹس کے چیف جسٹسز کے مشورہ سے ہو تاکہ یہ ادارہ 100 فیصد غیرجانبدار ہو، 100 فیصد ایک ثالثی ادارہ ہو اور یہ کسی کے احسان کا نہ ہو، چیئرمین سمجھتا ہے کہ جس نے مجھے مقرر کیا ہے، میں کیسے اپنے خالق کے خلاف انکوائری کروں اور اپنے فیصلے کروں اور یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت میں طویل عرصہ سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ تمام ادارے فیصلے دیتے وقت حکومت کی آنکھوں کو دیکھتے ہیں کہ حکومت کا موڈ کیا ہے اور یہ عوام کے حقوق کی بجائے حکومت اور سرکار کے حقوق کے لئے انہوں نے ہمیشہ کام کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس لئے ہماری قوم اور عدالتوں کو بھی جائزہ لینا ہے کہ جس طرح مسلح دہشت گرد مجرم ہے اور ان کے سہولت کار بھی مجرم ہیں تو جو لوگ کرپشن میں ملوث ہیں وہ مجرم ہیں لیکن جو لوگ اور جو ادارے اور جو سرکاری افسر ان کے سہولت کار ہیں،جنہوں نے ان کے جرائم اور گناہوں پر پردہ ڈالا ہے چشم پوشی کی ہے کیا یہ ادارے اسی طرح ان جرائم میں ملوث نہیں ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ تمام بڑے بڑے آفیسرز جو بڑی بڑی مراعات لیتے ہیں۔ بڑی بڑی تنخواہیں لیتے ہیں۔ یہ فرائض پورا کرنے کی بجائے اپنی مدت پوری کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں کرپشن بڑھ رہی ہے، ختم نہیں ہوئی میں سمجھتا ہوں ایک آسان سوال ہے اور ہمارا موقف بھی یہی ہے کہ ہر وہ دولت ناجائز ہے جن کے کمانے کا ذریعہ کمانے والا نہ بتا سکے۔

وہ حکمرانوں کے پاس ہو، وہ افراد کے پاس ہو، وہ کسی بیوروکریٹ کے پاس ہو اگر ایک سرکاری آفیسر کی تنخواہ ایک لاکھ ہے اور ان کے بچے جہاں پر پڑھ رہے ہیں ان کی فیسیں پانچ لاکھ سے زیادہ ہیں۔ ان کے گھر کا کرایہ لاکھوں میں ہے۔ ان کا لائف سٹائل بادشاہوں کی طرح ہے۔ کیا یہ ثبوت نہیں ہے کہ وہ ایک سہولت کار ہے یا چوری کرتا ہے یا چوری میں ملوث ہے۔

اسی طرح جو سیاستدان جو بیورو کریٹ جو دائیں بائیں آگے اور پیچھے نظر آنے والا جو بھی آدمی جس کو کبھی بھی سرکاری یا عوامی پوزیشن ملی ہے۔ سرکاری یا عوامی منصب ملا ہو اور انہوں نے دولت کے ڈھیر لگائے ہوں اور وہ یہ نہیں بتا سکتے ہیں کہ ان کے ذرائع کیا ہیں۔ میرے خیال میں اس سے زیادہ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ میں ایک بار پھر کہوں گا کہ ایک تاریخی لمحہ اللہ تعالیٰ نے ہماری عدالتوں کو بھی دیا ہے اور ہماری قوم کو بھی دیا ہے میں پوری طرح اطمینان دلاتا ہوں کہ پوری قوم احتساب کے لئے سپریم کورٹ کی پشت پر کھڑی ہے اور ثابت بھی کیا ہے کہ جب یہ قوم کسی جج کی پشت پر کھڑی ہو تو بڑے سے بڑا آمر اور ڈکٹیٹر بھی اس کے سامنے کچھ نہیں ہوتا، ماضی میں بھی یہ ثابت ہوا ہے میں امید رکھتا ہوں کہ پانامہ سکینڈل کا فیصلہ عوام کے حق میں آئے۔

کرپشن کے خلاف ہو گا اور جب میرٹ پر فیصلے ہوں گے۔ پاکستان کرپشن فری ملک بن جائے گا۔ کرپشن فری پاکستان بن جائے گا۔ ہماری یہ لڑائی سیاسی تعصب پر مبنی نہیں ہے۔ یہ فرد واحد کی نہیں ہے۔ یہ احتساب کے لئے ہے اور احتساب سب کا ہونا چاہئے۔ وہ کالا ہو یا سفید ہو وہ سبز ہو یا سرخ ہو وہ داڑھی والا ہو یا بغیر داڑھی والا ہو، وہ سیاسی لیڈر ہو وہ سرکاری افسر ہو سب کا احتساب قوم کا مطالبہ ہے۔

ایک سوال پر سراج الحق کا کہنا تھا کہ اگر کسی ڈاکٹر نے کوئی جرم کیا ہے تو اسے سزا دینی چاہئے لیکن یہ قطعاً غلط بات ہے کہ اگر ایک ڈاکٹر کا مسئلہ پیش ہو، کوئی بھی مسئلہ ہو اور اس بنیاد پر وہ ہڑتال کرتا ہے اور پوری قوم اس وجہ سے مصیبت میں ہوتی ہے لیکن میں یاد دلاتا چاہتا ہوں کہ جس نظام اور معاشرے میں مچھر پکڑے جاتے ہیں اور ہاتھی نکل جاتے ہیں، اس کے ساتھ یہی ہوتا ہے اس لئے اگر ہم نے ہاتھیوں پر ہاتھ ڈالا تو مچھر خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے۔