فوجی عدالتوں میں توسیع کا معاملہ،حکمران جماعت کو دھچکا،پارلیمانی جماعتوں کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس بے نتیجہ ختم

پیپلزپارٹی مذاکراتی عمل سے باہر ہوگئی، اے پی سی بلانے اور پارلیمانی جماعتوں کے سربراہی اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان جے یو آئی ف نے فوجی عدالتوں میں تین سال کی بجائے ڈیڑھ سال کی توسیع کی تجویز پیش کردی

بدھ 22 فروری 2017 21:48

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 22 فروری2017ء) حکمران جماعت مسلم لیگ ن کو فوجی عدالتوں میں توسیع سے متعلق 21 ویں آئینی ترمیم کو حتمی شکل دینے سے قبل ہی شکست کا سامنا۔ پیپلزپارٹی مذاکراتی عمل سے باہر ہوگئی‘ فوجی عدالتوں میں توسیع سے متعلق آل پارٹیز کانفرنس بلانے اور پارلیمانی جماعتوں کے سربراہی اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا ہے ۔

پارلیمانی جماعتوں کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس بے نتیجہ ختم ہوگیا۔ جمعیت علمائے اسلام( ف) نے فوجی عدالتوں میں تین سال کی بجائے ڈیڑھ سال کی توسیع کی تجویز پیش کردی ہے ۔ بدھ کے روز پارلیمنٹ ہائوس میں اہم اجلاس ہوا جس کی صدارت وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے کی جبکہ پیپلزپارٹی کی طرف سے شازیہ مری‘ ایم کیو ایم کی طرف سے ایس اے اقبال‘ پی ٹی آئی کی طرف سے شیری مزاری اور جمعیت علمائے اسلام ف کی طرف سے نعیمہ کشور نے نمائندگی کی۔

(جاری ہے)

اجلاس شروع ہی سے اختلافات کا شکار ہوگیا جب شازیہ مری نے پیپلزپارٹی کی جانب سے آئینی ترمیم پر اپنے تحفظات پیش کرتے ہوئے اجلاس اٹھ کر چلی گئیں۔ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں بتایا کہ اکیسیویں آئینی ترمیم کے حوالے سے ہونے والے اجلاس میں نئے آئینی ڈرافٹ پر حتمی مشاورت نہیں ہوسکی تو دو سیاسی جماعتوں میں بل کی حمایت اور دو نے مخالفت کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جن دو جماعتوں کے اس پر تحفظات ہیں انہیں آج ہونے والے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں دور کردیا جائے انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے آئینی ترمیم کے حوالے سے بل پر بعض شقوں پر تحفظات ہیں جنہیں ہم دور کردیں گے انہوں نے کہا کہ سہون شریف دربار پر حملے کے بعد تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت ہورہی ہے امکان ہے کہ جو بھی تحفظات ہیں انہیں دور کیا جائے گا۔

آج اس سلسلے میں سپیکر کی سربراہی میں پارلیمنٹ میں اعلیٰ سطحی اجلاس ہوگا۔ جس میں تمام امور طے پا جائیں گے۔ ایم کیو ایم اور جمعیت علمائے اسلام نے آئینی ترمیم کی حمایت کی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی رہنماء ممبر اسمبلی شیریں مزاری نے پریس بریفنگ میں بتایا کہ حکومت کی جانب سے ہم جو نیا آئینی ترمیم کے حوالے سے مشاورتی بل دیا گیا ہے۔

یہ اوریجنل بل سے ہٹ کر ہے۔ اس پر ہماری جماعت سے کوئی مشاورت نہیں ہوئی جو ہمیں جینون بل دیا گیا تھا یہ اب دیئے جانے والے بل سے بہت مختلف ہے نئے بل کے تحت کسی بھی عام فرد یا سیاستدانوں کو فوجی عدالتوں میں لایا جاسکتا ہے ہم نے حکومت سے مزید مہلت مانگی ہے اور اس سلسلے میں ہم اپنے پارٹی کے لوگوں کو اعتماد میں لیں گے انہوں نے کہا کہ حکومت کو انسداد دہشت گردی ایکٹ پر بھی نظر ثانی کرنی چاہیے ہمیں بتایا گیا کہ نیا انسداد دہشت گردی ایکٹ بھی لایا جارہا ہے دو ایکٹ ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔

حکومت کو نظر ثانی کیلئے ایک کمیٹی بنانی چاہیے۔ سیاستدانوں کے خلاف بنائے گئے سیاسی پرچوں کو ختم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ آئینی مسودے جو ہمیں اب دیئے جارہے ہیں یہ پرانے بل سے بہت مختلف ہیں۔ کل پارلیمانی پارٹی کے سربراہون کی میٹنگ ہورہی ہے اس میں ہم اعتراضات اٹھائیں گے۔ دوسری جانب انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی نے حکومت کی جانب سے لائے جانے والے ڈرافٹ پر تحفظات برقرار رہیں۔

فی الوقت جو ذیلی کمیٹی کا اجلاس ہوا ہے اس میں حکومت اور اپوزیشن جماعتیں کسی نتیجے پر نہیں پہنچی ہیں پارلیمنٹ ہائوس کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر نوید قمر نے حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان پارلیمانی سربراہوں کے اجلاس کے مشاورتی عمل سے باہر ہونے کا اعلان کردیا۔ نوید قمر نے کہا کہ حکومت کی جانب سے جو نیا بل لایا جارہا ہے اس کی ہم حمایت نہیں کریں گے۔

حکومت سیریس ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہی۔ انہوں نے کہا کہ دو سال پہلے اکیسیویں آئینی ترمیم پا س ہوئی تھی اس وقت بھی ہمارے تحفظات تھے دہشت گرد کون ہیں اس کی ابھی تک تعریف نہیں ہوئی پشاور میں آرمی سکول کے واقعے سے لے کر سہون شریف کے واقعے تک دہشت گردوں کی نشاندہی ہوچکی ہے۔ لیکن حکومت سارے معاملے سے توجہ ہٹا کر عام لوگوں اور سیاستدانوں کے خلاف بھی انتقامی کارروائی کرنا چاہتی ہے اصلی دہشت گردوں نے عوام اور ہمارے بچون کا جینا حرام کیا ہوا ہے اے ٹی سی کا جو حال ہوا ہے سب کو پتہ ہے۔

ایس ایچ او کے پاس پاور ہے وہ جس کو چاہے دہشت گرد بنا دے پیپلزپارٹی اس طرح کی چیزوں میں حصہ نہیں بنے گی انہوں نے کہا کہ ہم اس معاملے پر الگ سے آل پارٹیز کانفرنس بلائیں گے اور تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت عمل کریں گے۔ جمعیت علمائے اسلام کی رقم اسمبلی نعیمہ کشور نے کہا کہ ہم اس بل پر حکومت کی حمایت کرتے ہیں تاہم ہم نے آئینی ڈرافٹ میں تجویز دی ہے کہ فوجی عدالتوں میں تین سال کی بجائے ڈیڑھ سال کی توسیع ہونی چاہیے۔ (عابد شاہ)

متعلقہ عنوان :