سینٹ میں اپوزیشن ارکان کی اسلام آباد کچہری کے واقعہ کی شدید مذمت،حکومت سے واضح پالیسی پیش کرنے اور دہشت گردوں کیخلاف بھرپور کارروائی،مذہبی و سیاسی جماعتوں کی مذمتی کانفرنس بلانے اور ایوان کو اعتماد میں لینے کا مطالبہ، اپوزیشن کا وزیرداخلہ کے نہ آنے پر بھی سخت احتجاج ،ایوان سے واک آؤٹ ، وزیر مملکت بلیغ الرحمان کی وضاحت سننے سے انکار کر دیا،وزیرداخلہ نے کہا تھا کہ ایک سال میں امن و امان کی صورتحال بہتر نہ کر سکاتو استعفیٰ دیدوں گا،آٹھ ماہ ہوگئے ہیں ،رضاربانی،مذہبی جماعتیں اس وقت آستین کا سانپ بن چکی ہیں ،عبدالنبی بنگش، دہشت گرد صرف ایک جج کو مارنا چاہتے تھے لیکن جو سامنے آیا مارتے گئے،حاصل بزنجو،مذاکرات کس بات پر اور کیوں کئے جارہے ہیں ان کی آئینی حیثیت کیا ہے؟ بابر غوری

بدھ 5 مارچ 2014 08:06

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔5مارچ۔ 2014ء)سینٹ میں اپوزیشن ارکان نے اسلام آباد کچہری کے واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے حکومت سے واضح پالیسی پیش کرنے اور دہشت گردوں کیخلاف بھرپور کارروائی،مذہبی و سیاسی جماعتوں کی مذمتی کانفرنس بلانے اور ایوان کو اعتماد میں لینے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ اپوزیشن نے وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کے نہ آنے پر بھی سخت احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کیا اور وزیر مملکت بلیغ الرحمان کی وضاحت سننے سے انکار کر دیا۔

منگل کے روز سینٹ کے 102ویں اجلاس میں نقطہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما میاں رضا ربانی نے اسلام آباد دہشتگرد حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ واقعہ کے روز ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ایف ایٹ کچہری کا علاقہ دہشتگردوں کیلئے فری زون ہے اور ان کو روکنے والا کوئی نہیں ،اگر مذاکرات کے عمل کو جاری رکھا گیا تو یہ ریاست کی کمزوری شمار ہوگا اور آنے والے دنوں میں دہشتگرد پارلیمنٹ کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں ۔

(جاری ہے)

رضا ربانی نے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کہا تھا کہ اگر ایک سال میں ملک میں امن وامان کی صورتحال میں بہتری نہ لاسکا تو استعفیٰ دے دونگا تاہم دس ماہ ہوچکے ہیں امن وامان کی صورتحال بہتر ہونے کی بجائے مزید ابتر ہوگئی ہے لہذا وزیر داخلہ اپنی زبان کا پاس رکھتے ہوئے کب مستعفی ہونگے ۔ وزیر داخلہ نے ریپڈ ریسپانس فورس کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ سات منٹ کے اندرکسی بھی دہشت گردی یا حملے کا جواب دینے کی اہلیت رکھتی ہے تاہم ایک گھنٹے بعد بھی یہ فورس ایف ایٹ کچہری پہنچنے میں ناکام رہی ۔

جج اور وکلاء دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بنتے رہے ، گولیاں چلتی رہیں ، دھماکے ہوتے رہے تاہم ریپڈ ریسپانس فورس کہیں نظر نہ آئی ۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ سیکرٹری داخلہ نے آج اعلیٰ عدلیہ کو مطلع کیا کہ 67اہلکار کچہری میں تعینات تھے تاہم دوسری جانب آئی جی پولیس نے 47اہلکاروں کی تعیناتی کا دعویٰ کیا دونوں کے اپنے ہی بیان میں تضاد ہے ان کو معلوم ہی نہیں کتنے اہلکار تعینات تھے کتنوں کے پاس اسلحہ تھا اور دہشتگردوں کی تعداد کتنی تھی ۔

انہوں نے کہا کہ نیشنل کرائسز مینجمنٹ سیل نے قائمہ کمیٹی میں بریفنگ دی تھی کہ اسلام آباد غیر محفوظ ہے تاہم وزیر داخلہ نے کہا کہ اسلام آباد محفوظ ترین علاقہ ہے جس میں چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی ۔ انہوں نے کہا کہ ناکوں کیلئے الیکٹرانک نظام وضع کرلیا ہے یہ سب دعوے کہاں گئے اور دہشتگرد کیسے ان سب رکاوٹوں کو عبور کرکے کچہری پہنچے ۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں بتایا گیا کہ کچہری میں سکیورٹی کیمرے کام نہیں کررہے تھے دہشتگرد کھلے گھومتے رہے مگر وزارت داخلہ کہیں نظر نہیں آئی ۔

انہوں نے کہا کہ یہ کیسے مذاکرات ہیں کہ پاکستان کے عوام کے خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے اور ہمیں مذاکرات کا کہا جارہا ہے دہشتگرد صرف اعلان کرتے ہیں کہ ہم صرف نفاذ شریعت پر بات کرینگے دہشتگردی کو انہوں نے ایک طرف رکھ دیا ہے ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ موجودہ آئینی نظام پر کسی قسم کی سودے بازی نہیں ہونے دینگے ۔ انہوں نے کہا کہ واضح ہونا چاہیے کہ مذاکرات کن سے ہورہے ہیں ۔

ایک گروپ سیز فائر کرتا ہے تو دوسرا دہشتگردانہ کارروائیاں کرتا ہے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا ریاست کی آئینی ذمہ داری ہے افسوس اتنا بڑا واقعہ ہوا لیکن دو دن سے اس ایوان میں نہ وزیراعظم آئے نہ وزیر داخلہ آئے اور چیئرمین سینٹ کی رولنگ کو بھی نظر انداز کردیا گیا ۔ اس موقع پر سینیٹر عبدالنبی بنگش نے کہا کہ مولانا یوسف شاہ کل تک مولانا سمیع الحق کا ایک منشی تھا جس کی حیثیت کوئی نہیں تھی او ر آج کل ہر وقت میڈیا پر چھایا رہتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ بیس اکتوبر کو سکندر نے اسلام آباد کو یرغمال بنایا اس وقت بھی وزیر داخلہ کے پاس کوئی معلومات نہیں تھیں اور آج جب اتنا بڑا حادثہ ہوا تب بھی وزیر داخلہ ایوان کو کچھ بتانے میں ناکام رہے ۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی جماعتیں اس وقت آستین کا سانپ بن چکی ہیں جو کھل کر دہشتگردی اور دہشتگردوں کی حمایت کرتی ہیں ۔ حکومتی پالیسی نے افواج پاکستان کا مورال سرنگوں کردیا گیا ہے مسلح افواج ان دہشت گردوں کا صفایا کرنا چاہتی ہیں جس کیلئے حکومت ان کو اجازت نہیں دے رہی ۔

سینیٹر مختار دھامڑا کا کہنا تھا کہ اگر اس ملک میں دہشتگردوں کیخلاف فیصلے دینے والے جج اور وکلاء محفوظ نہیں تو کون محفوظ ہے؟ آج انسانی گوشت جانوروں کے گوشت سے زیادہ سستا ہوچکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم انسانی جانوں سے کھیلنے والے دہشتگردوں کیخلاف آپریشن کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ وزیر داخلہ کے بقول اسلام آباد میں چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی تاہم دہشتگردی بے خوف و خطر دو درجن سے زائد انسانوں کو موت کی نیند سلا سکتے ہیں انہوں نے مطالبہ کیا کہ وزیر داخلہ ایوان میں آکر عوام اور اراکین کو اعتماد میں لیں ۔

محسن لغاری کا کہنا تھا کہ واقعہ ریاست کی رٹ اور عوام کو تحفظ میں فراہمی میں ناکامی کا ثبوت ہے جو اراکین آج تنقید کررہے ہیں وہی ان اداروں پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں جس کی وجہ سے یہ ادارے آج اس حال پر پہنچے ہیں ۔ میر حاصل خان بزنجو نے سوال کیا کہ اس وقت 62گروپ کالعدم ہیں ان میں سے کتنوں کے ساتھ بات چیت چل رہی ہے ۔جن لوگوں کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے چنا گیا ہے تو ان کا کوئی نہ کوئی تعلق طالبان کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی کانفرنس بلائی جائے جو دہشت گردوں اور دہشت گردی کی مذمت کرے ۔ دہشت گرد صرف ایک جج کو مارنا چاہتے تھے لیکن جو سامنے آتا گیا اسے مارتے گئے ان کے نزدیک بریلوی ، شیعہ ، لبرل اور امن پسند قابل گردن زنی ہیں ۔متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے سینیٹر بابر غوری نے کہا کہ مذاکرات کس بات پر اور کیوں کئے جارہے ہیں ان کی آئینی حیثیت کیا ہے؟ کیا دہشت گرد ایک متوازی ریاست کی حیثیت رکھتے ہیں؟ جن سے مذاکرات کئے جارہے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ایف ایٹ کچہری 45منٹ تک دہشت گردوں کے نرغے میں رہی اور اس دوران حکومت کی رٹ کہیں نظر نہیں آئی ہم بار بار اس بات پر اصرار کررہے ہیں کہ آج نہیں تو کل یا پرسوں ایکشن کا فیصلہ کرنا پڑے گا، آج نیشنل سکیورٹی کونسل تیار کی جارہی ہے اس میں ملک اور عوام کے تحفظ کو ترجیح دی جائے گی تاہم ملک اور عوام دشمنوں سے اسی حالت میں نمٹنا ہوگا ۔

سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ خاتون وکیل فضہ ملک بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد وطن واپس آئی اور دہشتگردوں کے ہاتھوں شہید ہوگئی اس کی شہادت نے قوم کو سوگوار کردیا ہے ۔ دوسری جانب وزیر داخلہ کی مدت ہی مکمل نہیں ہورہی ہے ۔ ان کو طنز اور طعنوں کے علاوہ کچھ نہیں آتا جب بھی کوئی دعویٰ کرتے ہیں دہشت گرد ان کے دعوے کو مٹی میں ملا دیتے ہیں ۔

انہوں نے وزیر داخلہ کو چوہے سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ جنگ بندی کے اعلان کے بعد ایسے خوشیاں منا رہے تھے جیسے چوہا دم پر کھڑا ہوگیا ہے ۔ وزیر داخلہ کے مطابق طالبان اور حکومت دونوں خلوص کا مظاہرہ کررہے ہیں اور اس خلوص کا ایک اور مظاہرہ کل کچہری میں نظر آیا گزشتہ چھ ماہ میں 860 دہشت گردی کے واقعات ہوچکے ہیں جن میں ہزاروں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، اس موقع پر جب چیئرمین سینٹ سید نیئر حسین بخاری نے کامل علی آغا کو وقت کی کمی کے باعث تقریر مختصر کرنے کو کہا کہ تو انہوں نے ایوان سے علامتی واک آؤٹ کردیا ۔

ان کے ساتھ حزب اختلاف کے تمام سینیٹر بھی ایوان سے باہر چلے گئے۔ بعد ازاں جب وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمان ایوان میں کچہری واقعہ کے حوالے سے تفصیلات پیش کرنے لگے تو حزب اختلاف نے ان کی بات سننے سے انکار کردیا اور ”نو ، نو“ کے نعرے لگاتے ہوئے پھر ایوان سے واک آؤٹ کردیا ۔ اس موقع پر پانچ منٹ کا اضافی وقت دیا گیا تاہم کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے اجلاس آج (بدھ کو)صبح دس بجے تک ملتوی کردیا گیا ۔

مزید متعلقہ خبریں پڑھئیے‎ :