حکومت کا طالبان سے براہ راست مذاکرات کرنے کا فیصلہ، وزیر داخلہ فوکل پرسن مقرر،حکومت اور طالبان کی نامزد مذاکراتی کمیٹی کا طالبان کی طرف سے کارروائیاں بند کرنے پر اطمینان کا اظہار،دوسرے مرحلہ میں نئے لائحہ عمل کی تیاری پر اتفاق،حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے طالبان کمیٹی کو وزیر اعظم کی تجاویز پر راضی کر لیا، دونوں کمیٹیوں کا مشترکہ اجلاس جلد وزیراعظم کے ساتھ بلانے کافیصلہ، وزیر اعظم نے مولاناسمیع الحق سمیت طالبان مذاکراتی ٹیم کو خصوصی دعوت پروزیراعظم ہا ؤ س بلالیا،سمیع الحق نے دعوت قبول کرلی ،ملاقات آج دوپہر کے کھانے پر ہوگی،عرفان صدیقی نے مولانا سمیع الحق کووزیر اعظم کا خصوصی پیغام پہنچایا، مذاکراتی عمل کی کامیابی اور ملک سے دہشت گردی کے خاتمہ میں ان کی ذاتی کوششوں کی تعریف،مذاکراتی عمل جار رکھنے پر زور

جمعرات 6 مارچ 2014 08:07

نوشہرہ/اکوڑہ خٹک (رحمت اللہ شباب۔اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔6مارچ۔2014ء)حکومت اور طالبان کی نامزد مذاکراتی کمیٹی نے طالبان اور حکومت کی طرف سے کارروائیاں بند کرنے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے دوسرے مرحلہ میں آگے بڑھنے کیلئے نئے لائحہ عمل کی تیاری پر اتفاق کیا ہے اورحکومتی مذاکراتی کمیٹی نے طالبان کی کمیٹی کو وزیر اعظم نواز شریف کی تجاویز پر راضی کر لیا اور کہا کہ حکومتی کمیٹی نے رابطہ کا کردار ادا کر دیا ہے جبکہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ دونوں کمیٹیوں کا مشترکہ اجلاس جلد وزیراعظم محمد نوازشریف کے ساتھ ہوگاجس میں نئی حکمت عملی پر بات کی جائے گی اور حکومتی کمیتی کے رکن میجر ریٹائر محمد عامر نے کہا ہے کہ میں پاک فوج ،وزیر داخلہ ،وزیراعلی خیبر پختونخواہ اور گورنر خیبر پختونخواہ فیصلہ میں کردار ادا کریں،مولانا سمیع الحق نے کہا کہ امریکہ افغانستان حکومت اور بھارت دہشت گردی کو پھیلا کر مذاکرات سبوتاژ کرناچاہتے ہیں لیکن حکومت مذاکرات کو کامیابی کے ساتھ ہمکنار کرے۔

(جاری ہے)

طالبان اور حکومت ایک پیج پر اکٹھا ہو کر تیسری قوت کی نشاندہی کریں اور انہیں بے نقاب کریں ۔ بدھ کے روز نوشہرہ میں حکومتی اور طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے درمیان مذاکرات ہوئے جن میں دونوں کمیٹیوں کے ارکان شریک ہوئے۔ اجلاس کے بعد جاری ہونیوالے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ اکوڑہ خٹک میں مولانا سمیع الحق کی رہائش گاہ پر حکومت کی تشکیل کردہ کمیٹی اور طالبان کمیٹی کا مشترکہ اجلاس منعقد ہوا۔

اجلاس میں طالبان کی طرف سے فائر بندی کے اعلان اور بعد کی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ دونوں کمیٹیوں نے اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا کہ طالبان کی طرف سے فائر بندی اور سیکورتی ایجنسیزکی طرف سے جوابی کارروائیوں کے بند ہوجانے سے مذاکراتی عمل ایک اہم اور فیصلہ کن موڑ میں داخل ہوگیا ہے۔ حکومت کی تشکیل کردہ کمیٹی نے اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات کے نئے مرحلہ کو زیادہ موثر مفید اور نتیجہ خیز بنانے کے لئے نئی حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت ہے۔

کمیٹی نے بتایا کہ وہ وزیراعظم کو بھی اپنی اس تجویز سے آگاہ کرچکے ہیں کہ نئے تقاضوں کی روشنی میں موثر مذاکرات کے لئے نیا لائحہ عمل طے کیا جائے تاکہ فیصلہ سازی آسان ہو اور محدود مدت میں بہتر نتائج حاصل کر سکیں۔مشترکہ اعلامیہ کے مطابق طالبان کمیٹی نے اس امر سے اتفاق کیا کہ پہلے مرحلہ کی کامیابی کے بعد دوسرے مرحلے کو بھی مکمل امن کی منزل تک لے جانے کے لئے زیادہ موثر اور مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

طالبان کمیٹی کو وزیراعظم میاں نواز شریف سے ملاقات کیلئے کہا تاکہ مذاکرات کے دوسرے مرحلے اور نئی حکمت عملی کے بارے میں تبادلہ خیال کیا جاسکے۔اطلاعات کے مطابق اجلاس میں حکومتی کمیٹی کا کہنا تھا کہ ہم نے رابطہ کار کا کام مکمل کر دیا ہے اور اب فیصلہ سازی کا مرحلہ آ چکا ہے اس لئے وزیر اعظم نواز شریف کے سامنے جو تجاویز پیش کی گئی تھیں وہی تجاویز طالبان کے مذاکراتی کمیٹی کے سامنے رکھی گئی ہیں اور جس پر دونوں کمیٹیوں کے درمیان باقاعدہ طور پر اتفاق رائے ہو چکا ہے ۔

حکومتی کمیٹی کے رکن میجر (ر) عامر کا کہنا ہے کہ اب جو نیا مرحلہ آئے گا اس میں پاک فوج ،وزیر داخلہ ،وزیراعلی خیبر پختونخواہ اور گورنر خیبر پختونخواہ فیصلہ میں کردار ادا کریں اور طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت ہو تا کہ عمل خوش اسلوبی سے آگے بڑھایا جا سکے ۔ذرائع نے بتایا کہ آئندہ دو روز میں طالبان اور حکومتی کمیٹی کامشترکہ اجلاس وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ ہوگا اور طالبان سے بات چیت کی تجاویز بھی وزیر اعظم کو پیش کی جائیں گی ۔

حکومتی اور طالبان مذاکرات کمیٹیوں کے اجلاس کے بعد حکومتی کمیٹی کے کوآرڈینیٹر عرفان صدیقی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات کا پہلا دور ختم ہو چکا ہے اور اس سے پہلے دور میں حکومتی اور طالبان کمیٹی کی کوششوں سے ملک میں فائر بندی کا اعلان بھی ہو چکا ہے اور اب ملک میں باضابطہ طور پر جنگ بندی کی خلاف ورزی نہیں کی جارہی ہے ۔

عرفان صدیقی نے کہا کہ انہوں نے مولانا سمیع الحق سے عرض کیا ہے کہ مذاکرات کا جو سلسلہ25 دنوں سے چل رہا تھا اس کے نتائج تقریباً حاصل کر لئے گئے ہیں اور اب مذاکرات کے لئے دوسرا دور شروع ہو گا ۔عرفان صدیقی نے کہا کہ پہلا دور مشاورت رابطہ کاری اور راستے تلاش کرنے کا دور تھا لیکن اب ہم دوسرے دور میں داخل ہوگئے جس میں فیصلہ سازی ہونی ہے ۔

وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے بھی اسے سراہا ہے ۔عرفان صدیقی نے کہا کہ مولانا سمیع الحق نے وزیر اعظم سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور وزیر اعظم سے ملاقات کے لئے مولانا سمیع الحق کو حکومتی کو حکومتی کمیٹی کی جانب سے سہولیات مہیا کی جائیں گی ۔عرفان صدیقی نے کہا کہ مذاکرات کے لئے طریق کار حکمت عملی طے کرنے کے لئے بھی صلاح مشورے کے بعد دونوں کمیٹیاں جلد نتیجے پر پہنچ جائیں گی ۔

انہوں نے کہا کہ قوم بالکل مایوس نہ ہو اور دونوں کمیٹیوں میں مکمل اتفاق رائے ہے۔ طالبان کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کہا کہ پہلا مرحلہ بھی کمیٹیوں کی جدوجہ کے بعد ختم ہوگیا اور جس میں دونوں فریقین نے جنگ بندی کا اعلان کیا ہے، یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے کہ طالبان نے بغیر کسی شرط کے فائر بندی کا اعلان کیا ہے۔ سمیع الحق نے کہا کہ جنگ بندی کے بعد اب ملک میں ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اور قوم نے سکھ کا سانس لیتے ہوئے ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کیں۔

مولانا سمیع الحق نے کہا کہ ملک دشمن عناصر اب ان کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کریں گے اور دشمن ایڑی چوٹی کا زور لگا کر امن و امان کی صورت حال کو منطقی انجام تک نہیں پہنچنے دیگا۔انہوں نے کہا کہ طالبان کمیٹی کی جانب سے بھی طالبان کو کہا گیا ہے کہ وہ ان دھماکوں سے اپنی لا تعلقی کا اظہار کریں ، مولانا سمیع الحق نے کہا کہ اس وقت ملک میں امریکہ افغانستان حکومت اور بھارت دہشت گردی کو پھیلا کر مذاکرات سبوتاژ کرناچاہتے ہیں لیکن حکومت کو چاہیے کہ وہ اب ان مذاکرات کو کامیابی کے ساتھ ہمکنار کرے۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے طالبان سے بھی کہا ہے کہ طالبان اور حکومت ایک پیج پر اکٹھا ہو کر تیسری قوت کی نشاندہی کریں اور انہیں بے نقاب کریں ۔ان کا کہنا ہے وزیر اعظم کے حوصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف پر داخلی اور خارجی پریشر کے باوجود بڑی صبرو استقامت سے مذاکرات کا ساتھ دیا ۔ مولانا سمیع الحق نے کہا کہ دنیا کی جتنی طاقتیں بھی آپریشن کا کہیں لیکن ہم نے ملک کے حالات کو دیکھنا ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ فوج ،قوم اور حکومت کے ہمدرد ہیں ۔طالبان اور مقتدر طاقتوں نے ملکر فیصلہ کرنا ہے اور طالبان کے قیدیوں کو پہلے چھوڑا جائے اور تباہ شدہ علاقوں کی تعمیر نو کی جائے ۔دوسرے مختلف بڑے بڑے مسائل کا استقامت سے سامنا کرنا ہوگا۔مقتدر قوتوں سے اپیل ہے کہ وہ مایوس نہ ہوں اور صبرو حوصلہ سے کام لیں کیونکہ13 سال کی جنگ آسانی سے ختم نہیں ہوئی ۔

مولانا سمیع الحق نے کہا کہ طالبان نے پارلیمنٹ نظام اور آئین کو بدلنے مطالبہ نہیں رکھا ہے جو کہ بڑے حوصلے کی بات ہے۔ مولانا نے مشترکہ اعلامیہ سناتے ہوئے کہا کہ اگلے اجلاس میں طالبان کی فائر بندی کا اعلان اور بعد کی صورت حال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا ۔دونوں کمیٹیوں نے اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا کہ طالبان کی جانب سے فائر بندی اور سکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے جوابی کارروائی کے بند ہو جانے سے مذاکراتی عمل ایک اہم اور فیصلہ کن موڑ کی جانب سے داخل ہوگیا ہے۔

حکومتی کمیٹی نے اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات کے لئے مرحلے کو زیادہ موثر اور مفید بنانے کے لئے نئی حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت ہے ۔حکومتی کمیٹی نے بتایا کہ وہ اپنی تجویز سے وزیر اعظم کو بھی آگاہ کر چکے ہیں کہ نئے تقاضوں کی روشنی میں موثر لائحہ عمل اختیار کیا جائے تا کہ محدود مدت میں نتیجہ خیز نتائج حاصل کر سکیں اور طالبان کمیٹی نے بھی اتفاق کیا ہے کہ پہلے کامیاب مرحلے کے بعد دوسرے مرحلے کو بھی مکمل امن کی منزل تک لے جانے کے لئے زیادہ موثر اور مضبوط حکمت عملی کی ضرورت ہے اور طالبان کمیٹی نے وزیر اعظم سے ملاقات کی بھی خواہش کا اظہار کیا ہے تا کہ مذاکرات کے دوسرے مرحلے اور نئی حکمت عملی کے بارے میں تبادلہ خیال کیا جا سکے۔

حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ عرفان صدیقی نے مولانا سمیع الحق کووزیر اعظم محمد نوازشریف کا خصوصی پیغام پہنچایا۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے امن مذاکراتی عمل کی کامیابی اور ملک سے دہشت گردی کے خاتمہ میں ان کی ذاتی کوششوں کی تعریف کی ہے اور مذاکراتی عمل جاری رکھے پر زور دیا گیا۔وزیر اعظم نے مولاناسمیع الحق سمیت طالبان مذاکراتی ٹیم کو خصوصی دعوت پروزیراعظم ہا ؤ س بلالیا جبکہ مولانا سمیع الحق نے وزیر اعظم کی دعوت قبول کرلی ہے ۔

ملاقات آج (جمعرات کو) دوپہر کے کھانے پر ہوگی۔تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم محمد نوازشریف نے طالبان کمیٹی کے سربراہ مولاناسمیع الحق اور مذاکراتی ٹیم کو آج جمعرات دوپہر کے کھانے پر دعوت دے دی ۔یہ خصوصی پیغام حکومتی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ عرفان صدیقی نے مولانا سمیع الحق کو دونوں کمیٹیوں کے مشترکہ مذاکراتی اجلاس سے قبل ون ٹوون ملاقات میں دیا۔

مولاناسمیع الحق کے قریبی زرائع کے مطابق سمیع الحق نے مذاکراتی ٹیم کے رکن پروفیسر محمد ابراہیم اور مولانا یوسف شاہ کے ساتھ مشاورت کے بعد وزیر اعظم نوازشریف کی دعوت قبول کرتے ہوئے آج جمعرات کے روز اسلام اباد وزیراعظم ہا ؤ س جانے کا فیصلہ کیا ہے۔مولاناسمیع الحق کے قریبی زرائع کے مطابق گزشتہ دو ماہ کے دوران طالبان سیاسی شوری اور طالبان قیادت کے ساتھ مذاکراتی عمل اور دہشت گردی کے واقعات پر طالبان کمیٹی کے اصولی موقف سے آگاہ کریں گئے۔

ذرائع کے مطابق طالبان کمیٹی کی وزیر اعظم سے ملاقات میں دونوں کمیٹیوں کے اجلاس کے بارے میں لائحہ عمل اور مذاکراتی عمل سے متعلق چند اہم فیصلے کئے جائیں گے ۔کمیٹیوں کی ملاقات میں طالبان کمیٹی نے وزیر اعظم سے ملاقات کا مطالبہ کیا تھا ۔حکومت نے کالعدم تحریک طالبان سے اب براہ راست مذاکرات کرنے کا فیصلہ کرلیا اوراس سلسلے میں وزیر داخلہ کو فوکل پرسن مقرر کر دیا گیا ہے۔

ذرا ئع کے مطا بق وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کے دوران حکومتی کمیٹی کے رکن میجر عامر کا کہنا تھا کہ طالبان کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کے بعد حکومتی کمیٹی کے کام ختم ہوچکا ہے لہذا اب حکومت کو چاہئے کہ طالبان سے براہ راست مذاکرات کرے۔ وزیر اعظم نے میجر عامر کی تجاویز منظور کرتے ہوئے مذاکرات کے لئے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو فوکل پرسن مقرر کردیا۔حکومتی مذاکراتی ٹیم میں وزیر اعلی اور گورنر خیبرپختونخوا یا ان کے نمائندے شامل ہوں گے اور دوسری جانب فوج کی نمائندگی آئی ایس آئی کا سینئر افسر کرے گا۔