قومی اسمبلی ، اپوزیشن اور حکومتی اتحادیو ں کی جانب سے قومی داخلی پالیسی پر کڑی تنقید، تنقید سے بہتر ہے اپوزیشن مثبت تجویز دے، حکومت کا جواب ،موجودہ جنگ دہشتگردی کیخلاف نہیں بلکہ کثیر المقاصد جنگ ہے ، حکومت نے ناقص پالیسیوں کی وجہ سے طالبان اور ریاست کو برابر کھڑا کردیا ہے ،مولانا فضل الرحمن ، دہشتگردوں کے اقدامات کو حکومت اپنے اقدامات سے ناکام بنا ئے ،مذہبی منافرت پھیلانے والی ناپسندیدہ تقاریر کو روکا جائے،اسلام آباد واقعہ کی تحقیقات ہونی چاہئیں ، شازیہ مری ، حکومت کو وقت پر فیصلہ کرنا چاہئے 2006ء میں چارٹر آف ڈیموکریسی نہیں بارٹر معاہدہ تھا،پہلے پیپلزپارٹی کو باری دی گئی پھر مسلم لیگ(ن) کو مل گئی،آئندہ کیا ہوگا کیونکہ اب اوبامہ نہیں ہوگا،ظفراللہ جمالی، قومی داخلی پالیسی میں15ایکٹ شامل ہیں کیونکہ قانون کا بننا محض کاغذ کا ٹکڑا نہیں بلکہ یہ اثاثہ ہوتا ہے اور لائبریری میں ہوتا ہے، اقبال قادری اور دیگر کا قومی داخلی پالیسی پر بحث کرتے ہوئے اظہار خیال

جمعہ 7 مارچ 2014 07:57

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔7مارچ۔2014ء)قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن اور حکومتی اتحادیو ں کی جانب سے قومی داخلی پالیسی پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ تنقید سے بہتر ہے کہ اپوزیشن مثبت تجویز دے،جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہناہے کہ موجودہ جنگ دہشتگردی کیخلاف نہیں بلکہ کثیر المقاصد جنگ ہے ، حکومت نے ناقص پالیسیوں کی وجہ سے طالبان اور ریاست کو برابر کھڑا کردیا ہے ، تحریک طالبان پاکستان کی بجائے تمام متحارب گروپوں سے بات کی جائے ، مدا رس کیخلاف کوئی قانون منظور نہیں ہونے دینگے،طاقت کا استعمال کسی مسئلے کا حل نہیں ، طاقت کے استعمال پر حکومت کی حمایت نہیں کرسکتے ،پیپلزپارٹی کی رہنما شازیہ مری نے کہا کہ دہشتگردوں کے اقدامات کو حکومت اپنے اقدامات سے ناکام بنا ئے ،مذہبی منافرت پھیلانے والی ناپسندیدہ تقاریر کو روکا جائے،اسلام آباد واقعہ کی تحقیقات ہونی چاہئیں ، جبکہ میر ظفراللہ جمالی کا کہنا ہے کہ حکومت کو وقت پر فیصلہ کرنا چاہئے 2006ء میں چارٹر آف ڈیموکریسی نہیں بارٹر معاہدہ تھا،پہلے پیپلزپارٹی کو باری دی گئی پھر مسلم لیگ(ن) کو مل گئی،آئندہ کیا ہوگا کیونکہ اب اوبامہ نہیں ہوگا،ایم کیو ایم کے اقبال قادری نے کہا کہ قومی داخلی پالیسی میں15ایکٹ شامل ہیں کیونکہ قانون کا بننا محض کاغذ کا ٹکڑا نہیں بلکہ یہ اثاثہ ہوتا ہے اور لائبریری میں ہوتا ہے،قانون ساز پالیسی نہیں ہوتی بلکہ قانون ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

جمعرات کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں قومی داخلی پالیسی پر بحث کرتے ہوئے مسلم لیگ(ن) کے رکن اسمبلی عبیداللہ خان شادی خیل نے کہا کہ قومی داخلی پالیسی پر تنقید کرنے سے بہتر ہے کہ اپوزیشن مثبت تجویز دے،پیپلزپارٹی کی خاتون رکن اسمبلی شازیہ مری نے کہا کہ قومی داخلہ پالیسی موجودہ وقت کا تقاضا ہے کہ اس کا ازسر نو جائزہ لیا جائے،پیپلزپارٹی کی جمہوری حکومت نے نیٹو کی سپلائی کو8ماہ روکا تھا جو کہ ایک ریکارڈ ہے،انہوں نے کہا کہ دہشتگردوں کے اقدامات کو حکومت اپنے اقدامات سے ناکام بنا دے کیونکہ دہشتگردی سے معصوم لوگ متاثر ہوئے اور معذور ہوئے،اس کا ڈیٹا اکٹھا کرنا چاہئے،انہوں نے کہا کہ مذہبی منافرت پھیلانے والی ناپسندیدہ تقاریر کو روکا جائے اور اسلام آباد واقعہ کے45منٹ بعد پولیس پہنچی اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہئیں،انہوں نے کہا کہ قومی اداروں کی نجکاری کرنے سے حالات مزید خراب ہونگے ،انہوں نے کہا کہ وزارت خارجہ کی ترجمان کو جمہوریت سکھانے کی ضرورت ہے ان کا بیان تشویشناک ہے،انہوں نے کہا کہ جنوبی پنجاب میں دہشتگردوں کی نرسری ہے لیکن ان کیخلاف آپریشن کیوں نہیں کیا جاتا ہے،انہوں نے کہا کہ پنجاب میں دہشتگردی کے100واقعات ہوئے لیکن پنجاب حکومت کی رپورٹ میں ایک بھی واقعہ ظاہر نہیں کیا گیا۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ قومی داخلی پالیسی کے موقع پر گزشتہ دس سال سے بحث ہورہی ہے انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک کی جو صورتحال ہے وہ 2001ء کے بعد افغانستان کے حالات بدلنے کی وجہ سے ہے ۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ جنگ دہشتگردی کیخلاف نہیں بلکہ کثیر المقاصد جنگ ہے پہلے تین نظریات تھے سرمایہ دارانہ نظام ، روسی اشتراکتی نظام اور تیسرا غلامی معاشی نظام تھا اور عالمی سطح پر امریکی سرمایہ دارانہ اورروسی شراکتی نظام میں جنگ تھی اور روس نے کمیونسٹ نظام ساتھ والی ریاستوں پر جبراً نافذ کردیا اور دوسری طرف نیٹو بنائی گئی تاکہ مغربی ممالک کو بچایا جاسکے ۔

انہوں نے کہا کہ نیٹو اسلام اور مسلمانوں کو بڑا دشمن سمجھتی ہے اور یہ جنگ مغرب نے بھی متعارف کرائی ہے اس کو مسلمانوں سے نہ جوڑا جائے ۔انہوں نے کہا کہ اب دنیا میں تہذیبی جنگ شروع کردی گئی ہے ترک جیسی بہادر قوم کو بھی اقتصادیات کے باعث غلام بنا لیا گیا ہے اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھی یہی حربہ برصغیر میں استعمال کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ہماری تہذیب پر غیروں کا حملہ شروع ہوچکا ہے نائن الیون کے بعد صرف افغانستان ، ملا عمر اور اسامہ بن لادن تھا مگر جب امریکہ افغانستان جنگ شروع ہوئی تو اس وقت ملک میں طالبان کے حق اور مخالفت میں آرا تھیں اور ایک آمر کے فیصلوں کے باعث کچھ نان اسٹیک ہولڈرز بھی اٹھ کھڑے ہوئے ہم بندوق کے زور پر نظام کے حمایتی نہیں ہیں لیکن آمریت کی پالیسیوں کی وجہ سے کچھ لوگ قبائلی روایات کے باعث طالبان کی مدد کو گئے اور اس کے بعد پاکستان میدان جنگ بن گیا ۔

انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کیخلاف 2002ء سے اب تک بہت سے قانون بنے مگر افسوس مرض کم ہونے کی بجائے بڑھتا چلا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ آل پارٹیز کانفرنس مشترکہ اجلاسوں میں نواز لیگ اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کا یکساں موقف رہا لیکن افسوس داخلی پالیسی میں ذکر تک نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی تعلق کے حوالے سے قومی پالیسی میں ذکرنہیں ہے اور رہنما اصول نہیں ہیں کہ خارجہ پالیسی کے اصول کیا ہوں گے ۔

انہوں نے کہا کہ مذاکرات کو امن کے لیے ترجیح دی گئی مگر اب طاقت کے استعمال پر اتفاق رائے کا تقاضہ کیا جارہا ہے آخر کیوں طاقت کے استعمال پر اتفاق رائے طلب کیا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہ کہ نظریاتی تقابل ضرور ہے لیکن طاقت کے استعمال پر بھی اتفاق رائے نہیں ہوا ۔ انہوں نے کہا کہ جیسے ہی مذاکرات شروع ہوئے ہیں کچھ نام نہاد لبرل لوگ شوروشرابہ شروع کررہے ہیں اور پھر میڈیا بھی ان کا ساتھ دیتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ قیام امن کے لیے افواج کو آن بورڈ لیا جائے مگر افسوس ایسا نہیں کیا گیا اور اب وزیر داخلہ کی تقاریر سے لگ رہا ہے کہ فوج نے حکومت کو شاہد آن بورڈ لے لیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے مشورہ دیا تھا اگر مذاکرات کرتے ہیں تو صرف تحریک طالبان سے بات نہ کی جائے بلکہ دیگر تمام تنظیموں سے بات کی جائے تبھی یہ کامیاب ہوگی مگر افسوس اس حوالے سے پیش رفت نہیں ہوئی ۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے مطالبہ کیا تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر قانون سازی کی جائے ۔انہوں نے کہا کہ جرگہ تشکیل دیا اور قبائلی جرگہ بھی بات کرے تو پھر جرگہ ہی اس کام کو انجام دے گا اور پھر یوٹرن نہیں ہوگا لیکن افسوس ریاست اور طالبان کو برابر کھڑا کردیا گیا ہے اب ہاں اور ناں کا اختیار بھی دے دیا گیا ہے اور یہ ایک مذاق ہے ۔

انہوں نے کہا کہ جب آگ جل چکی گھر تباہ ہوچکا پھر جا کر ہمیں نیکٹا کا خیال آرہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جب بہت سے اداروں کو اکٹھا کردیا جائے گا تو پھر تمام ادارے ایک دوسرے کے سامنے آجائینگے دہشتگردی کے حوالے سے جنگ میں 80ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے اور اب مزید نقصان کا متحمل نہیں ہوسکتے ۔ انہوں نے کہا کہ افسوس اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات تک پیش نہیں ہوسکیں ۔

انہوں نے کہا کہ شریعت نافذ کرنے کے لئے بندوق اٹھانا جرم ہے تو پھر جمہوریت اور حدود کے اندررہتے ہوئے اسلامی نظام نافذ نہیں کرینگے تو پھر یہ بھی جرم ہے ملک کا تحفظ کرنا ہے تو پھر اسلامی قانون سازی کی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ 1994ء سے 2004ء تک مدارس کی رجسٹریشن بند کردی گئی لیکن مدارس کے بنانے پر پابندی عائد نہیں کی گئی،انہوں نے کہا کہ مدارس نے تسلیم کیا کہ سالانہ اپنی آمدنی اور دیگر معاملات پر چیک اینڈ بیلنس رکھا جائے گا،بتایا جائے کہ کیا حکومت نے ان مدارس کو چیک کیا۔

انہوں نے کہا کہ 20لاکھ سے زائد بچے مدراس میں تعلیم حاصل کررہے ہیں،جن مدارس میں انتہا پسندی کی تعلیم دی جاتی ہے ان کو اتحاد مدارس تعلیمات بلا کر نشاندہی کرے،امید ہے وہ اس پر رضا مندی ظاہر کردیں گے۔انہوں نے کہا کہ 2004ء کے بعد ایک معاہدہ ہوا کہ اس بنیاد پر رجسٹریشن ہو،مگر افسوس کے پھر مدارس میں مداخلت کی بات کی جاتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں کچھ سکولوں میں غیر اخلاقی سرگرمیاں جاری ہیں اس پر کیوں آواز نہیں اٹھائی جاتی اس معاملے پر سمجھوتے نہیں کرینگے انہوں نے کہا کہ مذہبی جماعتوں اور مدارس کو دیوار سے نہ لگایا جائے مذہبی جماعتوں نے بھی اس ملک کا تحفظ کیا ہے اور مذہب تہذیب کا تحفظ کیا ہے اور اگر اس کیخلاف سڑکوں پر جانا پڑا تو اس سے بھی دریغ نہیں کرینگے موجودہ ایجنڈا نواز لیگ کی حکومت کا نہیں امریکہ اور استعماری قوتوں کا ہے انہوں نے کہا کہ اگر ملک ٹھیک کرنا ہے تو پھر طبقاتی نظام تعلیم کو ختم کرنا ہوگا اس ملک میں تحفظ نسواں بل ، زنا بالرضا کابل پاس کرادیئے گئے ہیں اسی وجہ سے لوگ کاروباری اور دیگر الزامات کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں انہوں نے کہا کہ حکومت اتفاق رائے کی طرف جائے تو ساتھ دینگے ۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے حکومت کو مشورہ دیا کہ حکومت کو بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اگر ہماری تجاویز میں کچھ خامیاں ہیں تو بتائی جائیں ان کو دور کردینگے مگر خواہ مخواہ اردگرد نظر دوڑانے کی بجائے اس کی جانب توجہ دی جائے اور کمیٹیوں کے ذریعے مذاکرات کی بجائے مذاق سے گریز کیا جائے اور اتفاق رائے کی جانب سنجیدگی سے قدم اٹھایا جائے ۔

سابق وزیراعظم میر ظفراللہ خان جمالی نے کہا ہے کہ ہر حکومت اپنی پالیسی بناتی ہے اور موجودہ حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے کر قومی داخلی پالیسی تشکیل دی جائے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ہر فرد کی ضرورت ہے،ہر پاکستانی 24گھنٹے میں سے5منٹ ملک کو دے تو80کروڑ منٹ بنتا ہے،اس کا پاکستان کو بہت فائدہ ہوگا،مگر یہاں تنقید کی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت طالبان کو تسلیم کیا گیا تھا وہ جمہوری حکومت نہیں تھی ،کمیٹیاں معاملات کا ستیاناس کرنے کیلئے تشکیل دی جاتی ہیں ،انہوں نے کہا کہ باہر سے آئے لوگوں کو پی آئی اے میں بھاری معاوضوں پر تنخواہیں تو دی جاتی ہیں اور دہشتگردی کی جنگ میں78بلین ڈالر نقصان ہوا ہے،انہوں نے کہا کہ شکست کا مطلب اکثر ممبران کو معلوم ہی نہیں،تکلیف گلے کی نک ٹائی نہ بن جائے،انہوں نے کہا کہ ماضی میں فی سبیل اللہ فوری تشکیل دی گئی اور ان کا کام اپوزیشن کے سیاست دانوں کو جیل میں ڈالنا تھا،جو شخص پارلیمنٹ میں نہ ہو اس کا ایوان میں ذکر نہ ہو،اسلام آباد واقعہ میں لوگ مارے گئے لیکن اس کے ملزمان نہیں پکڑے گئے ۔

انہوں نے کہا کہ ملک ادھار پر چل رہا ہے ،بلوچستان تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے ہے،حالات ٹھیک کرنے کیلئے نیت ٹھیک ہونی چاہئے،کمیٹیوں سے کام نہیں بنے گا۔سینیٹر ظفراللہ خان جمالی نے کہا کہ حکومت کو وقت پر فیصلہ کرنا چاہئے 2006ء میں چارٹر آف ڈیموکریسی نہیں بارٹر معاہدہ تھا،پہلے پیپلزپارٹی کو باری دی گئی پھر مسلم لیگ(ن) کو مل گئی،آئندہ کیا ہوگا کیونکہ اب اوبامہ نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ جنہوں نے پاکستان بنانے میں کردار ادا نہیں کیا آج وہ ملک کی معیشت چلا رہے ہیں،انہوں نے کہا کہ گڈانی کول پاور پراجیکٹ میں کوئی بلوچ وزیر نہیں جس سے کل کو مسائل پیدا ہونگے،انہوں نے کہا کہ گڈانی پاور پراجیکٹ کے افتتاح کے موقع پر بلوچستان کی نمائندگی نہیں تھی،غلطی کو سمجھنا چاہئے،ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی ایس اے اقبال قادری نے کہا کہ ایک سگنل کو توڑنا پورے ٹریفک کے نظام کو درہم برہم کردیا ہے،قومی داخلی پالیسی میں15ایکٹ شامل ہیں کیونکہ قانون کا بننا محض کاغذ کا ٹکڑا نہیں بلکہ یہ اثاثہ ہوتا ہے اور لائبریری میں ہوتا ہے،قانون ساز پالیسی نہیں ہوتی بلکہ قانون ہوتا ہے،اسلام آباد میں واقعہ ہوا ،ملزمان فرار ہونے میں کامیاب ہوئے،معصوم شہریوں کے قاتلوں سے مذاکرات نہ کئے جائیں،انہوں نے کہا کہ ملک میں مردم شماری اور بلدیاتی انتخابات نہیں ہوسکا پاکسان کس طرح چلے گا۔

پیپلزپارٹی کے رکن اسمبلی عمران ظفرلغاری نے کہا کہ قومی داخلی پالیسی دیر آئید درست آئید اور نیکٹا کو خوابوں کی دنیا میں بنائے گئے سکولوں میں ہمیں مدارس کی طرح پھٹنے کے بعد حوروں کے خواب نہیں دیکھائے گئے،انہوں نے کہا کہ پنجاب میں 5 مدارس پر پابندی عائد کرنی چاہئے۔انہوں نے کہا کہ ملک میں دہشتگردی پروان چڑھ گئی کہ آج اس کے ساتھ فوج مذاکرات کرے گی،پیپلزپارٹی کی آئیڈیالوجی ختم نہیں ہوگی اور نیکٹا پر عملدرآمد وفاق نے کرنا ہے،صوبوں نے نہیں اور نہ ہی فنڈنگ صوبے کریں گے،انہوں نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات شہداء کے خون کے ساتھ غداری ہوگی اور پاکستان کو آگے بڑھ کر بچانا ہے،انہوں نے کہا کہ فاٹا کو علیحدہ صوبہ بنائیں یا پھر اس کو خیبرپختونخوا میں شامل کردیں تاکہ ان کے مسائل پشاور میں حل ہوں،انہوں نے کہا کہ پنجاب میں دہشتگردی کی محفوظ پناہ گاہیں ختم کریں۔

مسلم لیگ(ن) کے رکن اسمبلی سردار اویس خان لغاری نے کہا کہ دہشتگردی کی جنگ میں50ہزار شہید ہوئے اور78بلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے اور امن وامان کی بحالی کیلئے ہر سال55ارب روپے خرچ ہوتے ہیں ،انہوں نے کہا کہ پولیس اہلکاروں میں اتنی اہلیت نہیں کہ وہ امن وامان بحال کریں،پاکستان میں پولیس اہلکار کرائم ریٹ کو رپورٹ نہیں کرتے اور رپورٹ میں کرائم ظاہر نہیں کرتے جبکہ امن وامان کی صورتحال خراب تر ہوتی جارہی ہے،انہوں نے کہا کہ سائبر کرائم بل کو قانونی شکل دی جائے اور باڈر کنٹرول پر توجہ دی جائے،پی ٹی اے اور پیمرا کو ایک ریگولیٹری اتھارٹی بنانی چاہئے۔

سردار اویس لغاری نے کہا کہ قومی داخلی پالیسی میں ہر طبقہ فکر کے سکالر اس میں سٹیک ہولڈر ہے،مذہبی منافرت اور پراکسی وار بھی حالات خراب کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے،انہوں نے کہا کہ ضلعی ڈیرہ غازی خان میں باہر ممالک سے پیسہ لے کر آرہے ہیں اور5ایکڑ رکھنے والے اربوں روپے کے مالک بن گئے ہیں،اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ تحریک انصاف کے رکن اسمبلی داور خان کنڈی نے کہا کہ کالعدم تنظیموں پر مکمل پابندی ہونی چاہئے اور اس امر کا جائزہ لینا چاہئے کہ دہشتگردی کے پھیلنے کے کونسے راستے ہیں،انہیں روکنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ پاک فوج پر پوری قوم کو فخر ہے ،داخلی پالیسی میں گلی محلوں میں ریمنڈ ڈیوس پھرنے والوں پر کس طرح نظر رکھیں گے،اس کا ذکر نہیں۔