اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے تحت اسلامی قوانین وضع کئے جائیں ، مولانا فضل الرحمن، بندوق کے زور پر شریعت نافذ کرنا جرم ہے تو پارلیمنٹ میں بیٹھ کر جان بوجھ کر اسلامی قوانین میں رکاوٹ ڈالنا بھی اتنا ہی بڑا جرم ہے ، حکومت نے ناقص پالیسیوں کی وجہ سے طالبان اور ریاست کو برابر کھڑا کردیا ہے ، اور ہاں اور ناں کا اختیار بھی طالبان کو فراہم کردیا ہے ، تحریک طالبان پاکستان کی بجائے تمام متحارب گروپوں سے بات کی جائے ، مدا رس کیخلاف کوئی قانون منظور نہیں ہونے دینگے حکومت فوج کو آن بورڈ نہیں لے سکی مگر فوج نے شای دحکومت کو آن بورڈ لے لیا ہے ، طاقت کا استعمال کسی مسئلے کا حل نہیں ، طاقت کے استعمال پر حکومت کی حمایت نہیں کرسکتے ،حکومت مشیروں کی بجائے اتحادیوں کو اعتماد میں لے ، نیکٹا کسی مسئلے کا حل نہیں اس سے اداروں میں ٹکراؤ بڑھ جائے گا ،سربراہ جے یو آئی ف کا قومی اسمبلی میں قومی و داخلی پالیسی پر بحث کے دوران اظہار خیال

جمعہ 7 مارچ 2014 08:01

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔7مارچ۔2014ء) قومی اسمبلی میں جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے تحت اسلامی قوانین وضع کئے جائیں ، اگر بندوق کے زور پر شریعت نافذ کرنا جرم ہے تو پارلیمنٹ میں بیٹھ کر جان بوجھ کر اسلامی قوانین میں رکاوٹ ڈالنا بھی اتنا ہی بڑا جرم ہے ، حکومت نے ناقص پالیسیوں کی وجہ سے طالبان اور ریاست کو برابر کھڑا کردیا ہے ، اور ہاں اور ناں کا اختیار بھی طالبان کو فراہم کردیا ہے ، تحریک طالبان پاکستان کی بجائے تمام متحارب گروپوں سے بات کی جائے ، مدا رس کیخلاف کوئی قانون منظور نہیں ہونے دینگے ، مذہب کی جنگ مسلط کی گئی تو پیچھے نہیں ہٹیں گے ، موجودہ پالیسی نواز لیگ کی نہیں امریکہ و استعماری قوتوں کا ایجنڈا ہے جس کو تسلیم نہیں کرینگے ، حکومت فوج کو آن بورڈ نہیں لے سکی مگر فوج نے شاید حکومت کو آن بورڈ لے لیا ہے ، طاقت کا استعمال کسی مسئلے کا حل نہیں ، طاقت کے استعمال پر حکومت کی حمایت نہیں کرسکتے ،حکومت مشیروں کی بجائے اتحادیوں کو اعتماد میں لے ، نیکٹا کسی مسئلے کا حل نہیں اس سے اداروں میں ٹکراؤ بڑھ جائے گا ۔

(جاری ہے)

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے قومی و داخلی پالیسی پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ قومی داخلی پالیسی کے موقع پر گزشتہ دس سال سے بحث ہورہی ہے انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک کی جو صورتحال ہے وہ 2001ء کے بعد افغانستان کے حالات بدلنے کی وجہ سے ہے ۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ جنگ دہشتگردی کیخلاف نہیں بلکہ کثیر المقاصد جنگ ہے پہلے تین نظریات تھے سرمایہ دارانہ نظام ، روسی اشتراکتی نظام اور تیسرا غلامی معاشی نظام تھا اور عالمی سطح پر امریکی سرمایہ دارانہ اورروسی شراکتی نظام میں جنگ تھی اور روس نے کمیونسٹ نظام ساتھ والی ریاستوں پر جبراً نافذ کردیا اور دوسری طرف نیٹو بنائی گئی تاکہ مغربی ممالک کو بچایا جاسکے ۔

انہوں نے کہا کہ نیٹو اسلام اور مسلمانوں کو بڑا دشمن سمجھتی ہے اور یہ جنگ مغرب نے بھی متعارف کرائی ہے اس کو مسلمانوں سے نہ جوڑا جائے ۔انہوں نے کہا کہ اب دنیا میں تہذیبی جنگ شروع کردی گئی ہے ترک جیسی بہادر قوم کو بھی اقتصادیات کے باعث غلام بنا لیا گیا ہے اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھی یہی حربہ برصغیر میں استعمال کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ہماری تہذیب پر غیروں کا حملہ شروع ہوچکا ہے نائن الیون کے بعد صرف افغانستان ، ملا عمر اور اسامہ بن لادن تھا مگر جب امریکہ افغانستان جنگ شروع ہوئی تو اس وقت ملک میں طالبان کا حق اور مخالفت آرا تھیں اور ایک آمر کے فیصلوں کے باعث کچھ نان اسٹیک ہولڈرز بھی اٹھ کھڑے ہوئے ہم بندوق کے زور پر نظام کے حمایتی نہیں ہیں لیکن آمریت کی پالیسیوں کی وجہ سے کچھ لوگ قبائلی روایات کے باعث طالبان کی مدد کو گئے اور اس کے بعد پاکستان میدان جنگ بن گیا ۔

انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کیخلاف 2002ء سے اب تک دہشتگردی کیخلاف بہت سے قانون بنے مگر افسوس مرض کم ہونے کی بجائے بڑھتا چلا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ آل پارٹیز کانفرنس مشترکہ اجلاسوں میں نواز لیگ اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کا یکساں موقف رہا لیکن افسوس داخلی پالیسی میں ذکر تک نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی تعلق کے حوالے سے قومی پالیسی میں ذکرنہیں ہے اور رہنما اصول نہیں ہیں کہ خارجہ پالیسی کے اصول کیا ہوں گے ۔

انہوں نے کہا کہ مذاکرات کو امن کے لیے ترجیح دی گئی مگر اب طاقت کے استعمال پر اتفاق رائے کا تقاضہ کیا جارہا ہے آخر کیوں طاقت کے استعمال پر اتفاق رائے طلب کیا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہ کہ نظریاتی تقابل ضرور ہے لیکن طاقت کے استعمال پر بھی اتفاق رائے نہیں ہوا ۔ انہوں نے کہا کہ جیسے ہی مذاکرات شروع ہوئے ہیں کچھ نام نہاد لبرگ لوگ شورو وغوش شروع کررہے ہیں اور پھر میڈیا بھی ان کا ساتھ دیتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ قیام امن کے لیے افواج کو آن بورڈ لیا جائے مگر افسوس ایسا نہیں کیا گیا اور اب وزیر داخلہ کی تقاریر سے لگ رہا ہے کہ فوج نے حکومت کو شاہد آن بورڈ لے لیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے مشورہ دیا تھا اگر مذاکرات کرتے ہیں تو صرف تحریک طالبان سے بات نہ کی جائے بلکہ دیگر تمام تنظیموں سے بات کی جائے تبھی یہ کامیاب ہوگی مگر افسوس اس حوالے سے پیش رفت نہیں ہوئی ۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے مطالبہ کیا تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر قانون سازی کی جائے شدت پسندوں کے معیار پر مرہم ہوجائینگے انہوں نے کہا کہ جرگہ تشکیل دیا اور قبائلی جرگہ بھی بات کرے تو پھر جرگہ ہی اس کام کو انجام دے گا اور پھر یوٹرن نہیں ہوگا لیکن افسوس ریاست اور طالبان کو برابر کھڑا کردیا گیا ہے اب ہاں اور ناں کا اختیار بھی دے دیا گیا ہے اور یہ ایک مذاق ہے افسوس کون سے مشیر حکومت کو مل گئے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ جب آگ جل چکی گھر تباہ ہوچکا پھر جا کر ہمیں نیکٹا کا خیال آرہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جب بہت سے اداروں کو اکٹھا کردیا جائے گا تو پھر تمام ادارے ایک دوسرے کے سامنے آجائینگے دہشتگردی کے حوالے سے جنگ میں 80ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے اور اب مزید نقصان کا متحمل نہیں ہوسکتے ۔ انہوں نے کہا کہ افسوس اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات تک پیش نہیں ہوسکیں ۔

انہوں نے کہا کہ شریعت کے نافذ کرنے کے لئے بندوق اٹھانا جرم ہے تو پھر جمہوریت اور حدود کے اندررہتے ہوئے اسلامی نظام نافذ نہیں کرینگے تو پھر یہ بھی جرم ہے ملک کا تحفظ کرنا ہے تو پھر اسلامی قانون سازی کی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ 1994ء سے 2004ء تک مدارس کی رجسٹریشن بند کردی گئی جبکہ کار اختیار الگ نہیں تھا 2004ء کے بعد ایک معاہدہ ہوا کہ اس بنیاد پر رجسٹریشن ہو ، مالیاتی نظام اور تعلیمی نظام کیا ہے اور اس کا تعلیمی نصاب کیا ہے مگر افسوس کے پھر مدارس میں مداخلت کی بات کی جاتی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اس ملک میں کچھ سکولوں میں غیر اخلاقی سرگرمیاں جاری ہیں اس پر کیوں آواز نہیں اٹھائی جاتی اس معاملے پر سمجھوتے نہیں کرینگے انہوں نے کہا کہ مذہبی جماعتوں اور مدارس کو دیوار سے نہ لگایا جائے مذہبی جماعتوں نے بھی اس ملک کا تحفظ کیا ہے اور مذہب تہذیب کا تحفظ کیا ہے اور اگر اس کیخلاف سڑکوں پر جانا پڑا تو اس سے بھی دریغ نہیں کرینگے موجودہ ایجنڈا نواز لیگ کی حکومت کا نہیں امریکہ اور استعماری قوتوں کا ہے انہوں نے کہا کہ اگر ملک ٹھیک کرنا ہے تو پھر طبقاتی نظام تعلیم کو ختم کرنا ہوگا اس ملک میں تحفظ نسواں بل ، زنا بالرضا کابل پاس کرادیئے گئے ہیں اسی وجہ سے لوگ کاروباری اور دیگر الزامات کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں انہوں نے کہا کہ حکومت اتفاق رائے کی طرف جائے تو ساتھ دینگے ۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے حکومت کو مشورہ دیا کہ حکومت کو بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اگر ہماری تجاویز میں کچھ خامیاں ہیں تو بتائی جائیں ان کو دور کردینگے مگر خواہ مخواہ اردگرد نظر دوڑانے کی بجائے اس کی جانب توجہ دی جائے اور کمیٹیوں کے ذریعے مذاکرات کی بجائے مذاق سے گریز کیا جائے اور اتفاق رائے کی جانب سنجیدگی سے قدم اٹھایا جائے ۔