لا پتہ افرا د کی با زیا بی میں حکومت کی غیر سنجیدگی ناقابل بردا شت ہے ، سپر یم کو رٹ ،حکومت اگر اپنے شہریوں کی آزادی کا تحفظ نہیں کر سکتی تو پھر انہیں تیسرے درجے کا شہری قرار د ے،حساس ادارے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے تو ملک کے حالات آج ایسے نہ ہوتے،جسٹس جواد ایس خواجہ ، حکومتی ادارے محض توں چل میں چل کے سوا اور کوئی کام نہیں کرتے، آئینی اور قانونی مجبوری حائل نہ ہوتی تو لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے خود تفتیش کے لئے نکل کھڑے ہوتے، ،35 لاپتہ افراد کے مقدمے کی سما عت کے دورا ن ریما رکس

جمعہ 7 مارچ 2014 08:05

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔7مارچ۔2014ء)سپریم کورٹ میں مالاکنڈ حراستی مرکز سے اٹھائے گئے35 لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر آئینی اور قانونی مجبوری حائل نہ ہوتی تو لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے خود تفتیش کے لئے نکل کھڑے ہوتے ۔حکومت اور حساس ادارے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے تو ملک کے حالات آج ایسے نہ ہوتے۔

سابق چیف جسٹس فرماتے تھے کہ حکومتی ادارے محض توں چل میں چل کے سوا اور کوئی کام نہیں کرتے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کی غیر سنجیدگی ناقابل بردا شت ہے۔ حالات یہ ہیں کہ ایک شہری لاپتہ ہوگیا اس کے حوالے سے ایف آئی آر تک درج نہیں کی گئی ۔ وفاقی اور صوبائی حکومت اگر اپنے شہریوں کی آزادی کا تحفظ نہیں کر سکتی تو پھر اسے چاہئے کہ تمام لاپتہ افراد کو تیسرے درجے کا شہری قرار دیکر تحریری طور پر کہہ دے کہ ان کے کوئی بنیادی انسانی حقوق نہیں ہیں ۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس جمعرات کے روز دیئے ہیں جبکہ عدالت نے سماعت پیر تک ملتوی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل پاکستان اور ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخواہ اغواء کو ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم دیا ہے ۔مالاکنڈ حراستی مرکز سے فوج کی جانب سے مبینہ طور پر اٹھائے گئے 35 لاپتہ افراد کے حوالے سے مقدمے کی سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے جمعرات کے روز کی ۔

اس دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل شاہ خاور،آمنہ مسعود جنجوعہ،درخواست گزار محبت شاہ ،وزارت دفاع کے ڈائریکٹر لیگل محمد عرفان قادر اور کے پی کے وزارت داخلہ کے نمائندے پولیس حکام پیش ہوئے ۔ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے کی جانب سے وکیل نے بتایا کہ ان کی ایمر جنسی ہوگئی ہے وہ پیش نہیں ہو سکیں گے ۔اس پر عدالت نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے کو بلا لیا۔

شاہ خاور نے بتایا کہ صورت حال جوں کی توں ہے ۔پانچ افراد پیش کردیئے تھے حراستی مرکز میں موجود دو افراد میں سے ایک سے ان کی اہلخانہ کی ملاقات ہوگئی تھی اس پر عدالت نے کہا کہ ملاقات نہیں ہوئی تھی جسٹس جواد نے کہا کہ یاسین شاہ کہاں ہے؟شاہ خاور نے بتایا کہ ان کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا ہے ۔کے پی کے حکومت نے جامع رپورٹ جمع کروائی تھی ان کو پتہ نہیں چل سکا ہے۔

مالاکنڈ کے زیر اثر ہے ۔عدالت کو بتایا کہ ایجنسی کو تحویل میں ہے۔عدالت نے پوچھا کہ حراستی مرکز مالاکنڈ میں کہاں واقع ہے؟کے پی کے حکام نہ بتا سکے۔محبت شاہ نے بتایا کہ یہ قلعے کے پاس ہے ۔جسٹس جواد نے کہا کہ یہ ریاستی اقدامات غیر تسلی بخش ہیں ہمیں پراگریس بتائیں۔یہ وفاق کی ذمہ داری ہے کیونکہ یہ علاقہ وفاق کے زیر انتظام ہے۔صوبائی حکومت کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔

ہم نے واضح طور پر کہا تھا کہ یاسین شاہ کے حوالے سے پیش رفت چاہیے۔ یہ تو نامناسب بات ہے کہ کہ ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی ۔آمنہ مسعود نے بتایا کہ یاسین شاہ کے معاملے پر ایف آئی آر تک درج نہیں کی گئی ہے۔اس پر کے پی کے حکام نے بتایا کہ وقت دے دیں ریکارڈ منگوا لیتے ہیں ۔شاہ خاور نے کہا کہ اس کیس کو پیر کو رکھ لیں ۔اٹارنی جنرل بھی آ جائیں گے ۔

جسٹس جواد نے کہا کہ نامعلوم ملزم کے خلاف بھی مقدمہ درج ہو۔مقدمہ تو درج ہونا چاہیے۔ایک ایک لمحہ لاپتہ افراد کے لواحقین کے لئے گزارنا مشکل ہے۔اگر حکومت نے اپنی ذمہ داری محسوس کی ہوتی تو آج معاملات یہاں تک نہ ہوتے ۔ہمیں اپنے اختیارات اور دائرہ کار کی وجہ سے بہت کچھ سوچنا پڑتا ہے وگرنہ ہم خود تفتیش کے لئے چلے جاتے۔اگر اللہ تعالی کی مشیت کے تحت کچھ ہوا ہے تو اوربات ہے۔

ہم سے تو سستی نہیں ہونی چاہیے ۔سابق چیف جسٹس فرماتے تھے معاملات میں بس اتنا ہی ہے تو چل میں چل اور کچھ نہیں ہو رہا ہے۔ ایک شہری کو بتلا تو دیں کہ وہ تیسرے درجے کا شہری ہے اور اس کے کوئی بنیادی حقوق نہیں ہیں ۔کم از کم اسے بتلا تو دیں صوبہ اور وفاق خود ہی بتلا دے ۔صوبے کو بھی پتہ ہے بندہ غائب ہے۔اٹارنی جنرل پاکستان اور ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخواہ کو بھی بلائیں وہ خود پیش ہو کر جواب دیں۔

آخر شہریوں کے ساتھ ایسا کب تک ہوتا رہے گا۔ آرڈر میں عدالت نے لکھوایا کہ یاسین شاہ ولد محبت شاہ کی بازیابی میں کوئی پیشرفت نہ ہوئی ہے ۔ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخواہ ایمر جنسی کی وجہ سے نہیں آسکے ہیں۔شاہ خاور نے بتایا کہ اٹارنی جنرل پیر کو آ جائیں گے ۔امید ہے کہ پیش رفت ہوگی ۔جسٹس جواد نے کہا کہ سی آر پی سی قوانین سب پر لاگو ہوتے ہیں ۔

اگر کوئی اس سے ماورا ہے تو بتلا دیں۔وفاقی اور صوبائی حکومت غیر سنجیدہ کیوں ہیں؟پیش رفت کیوں نہیں دکھاتے۔ہر روز ہمیں بتلا دیا جاتا ہے کہ کوئی پراگریس نہیں ہے۔حراستی مرکز کے انچارج عطاء اللہ کو پکڑ لیں ان کا بیان لیں سب نے کہہ رکھا ہے تب بھی بات نہیں بن رہی ہے ۔کسی پر شبہ نہیں کریں گے اور کڑی سے کڑی نہیں جوڑیں گے تو کام نہیں بنے گا۔عدالت نے مزید سماعت دس مارچ ملتوی کر دی ۔

متعلقہ عنوان :