زرعی شعبے کو ترقی دینے کے لیے اجتماعی طرز فکر کی ضرورت ہے، اسحاق ڈار ، مالی شمولیت کو فروغ دینے میں ڈی ایف آئی ڈی اور اسٹیٹ بینک کے درمیان شراکت داری خوش آئند ہے، وفاقی وزیر خزانہ

جمعہ 7 مارچ 2014 07:52

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔7مارچ۔2014ء)وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان میں زرعی شعبے اور زرعی فنانس کو ترقی دینے کے لیے اجتماعی و مربوط طرز فکر کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار جمعرات کو اسلام آباد میں ”پاکستان میں اختراعی دیہی و زرعی فنانس کی ترقی“ پر مالی اختراع چیلنج فنڈ (ایف آئی سی ایف) کے دوسرے مرحلے کی افتتاحی تقریب میں بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔

اس پروگرام کے لیے فنڈز یو کے ایڈ فراہم کر رہی ہے اور اسٹیٹ بینک اس پر ”پاکستان مالی شمولیت پروگرام“ کے حصے کے طور پر عملدرآمد کروا رہا ہے۔مرکزی بینک کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان میں غربت کم کرنے کی غرض سے مالی شمولیت (financial inclusion) کو فروغ دینے میں ڈی ایف آئی ڈی اور اسٹیٹ بینک کے درمیان شراکت داری سے دونوں ممالک کے درمیان روابط مزید مضبوط ہوگئے ہیں۔

(جاری ہے)

اسٹیٹ بینک اور برطانوی حکومت کو مبارکباد دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ اقدام پست آمدنی والوں اور بینکاری سہولتوں سے محروم آبادی خاص طور پر ہمارے دیہی گھرانوں اور دیہی کاروباریوں کو طلب پر مبنی اختراعی مالی خدمات فراہم کر کے شراکتی اقتصادی نمو کو فروغ دینے میں انتہائی اہم کردار ادا کرے گا۔انہوں نے حاضرین کو نوے کی دہائی میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے اقدامات یاد دلائے جن میں پاکستان میں بینکاری شعبے کی اصلاحات شامل تھیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ تب سے پاکستان کی صنعت بینکاری میں بڑی تبدیلی آ چکی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے قائم مقام گورنر اشرف محمود وتھرا نے اپنے خیرمقدمی کلمات کہا کہ دیہی علاقوں میں غربت کے خاتمے کے لیے مالی اختراع کو چھوٹے کاشت کاروں کی پیداواریت بڑھانے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ غربت سے نمٹنے کے لیے بنیادی سوچ میں تبدیلی اور اختراع کی ضرورت ہے۔

انہوں نے حاضرین کو یاد دلایا کہ غربت میں کمی کے لیے مالی رسائی بہتر بنانا ایک عالمی چیلنج ہے۔ ”دنیا کے 2 ارب سے زائد بالغ افراد کو نیم رسمی یا رسمی مالی خدمات تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، موبائل فون رکھنے والے ایک ارب افراد کے پاس ایک عام بینک اکاؤنٹ تک نہیں۔“انہوں نے کہا کہ حکومت اور اسٹیٹ بینک دونوں ہی اختراعی طرز فکر اور اقدامات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

وتھرا نے غذائی تحفظ، اقتصادی نمو، اور غربت و عدم مساوات کم کرنے میں زراعت کے بنیادی کردار پر زور دیتے ہوئے کہا کہ دیہی شعبے میں مالی خدمات تک رسائی میں اضافہ اس سلسلے میں ناگزیر کردار ادا کر سکتا ہے۔انہوں نے حاضرین کو اسٹیٹ بینک کے ان اقدامات سے مختصراً آگاہ کیا جو وہ زرعی قرضوں کے ذریعے مالی شمولیت کے فروغ کے لیے کر رہا ہے۔ ان اقدامات میں یہ چیزیں شامل ہیں: بینکوں کو زرعی قرضوں کے حوالے سے شمولیتی (all-inclusive) پالیسیاں بنانے اور اپنے یہاں مخصوص زرعی ڈویژن قائم کرنے کی ہدایت؛ فصلوں، باغات اور جنگل بانی کے لیے 2008ء میں قرضے کی فی ایکڑ مقرر حد پر نظر ثانی؛ قرض گیروں کے لیے ”مویشی بیمہ اسکیم“ اور زرعی اشارتی (Indicative) ٹارگٹ اسکیم میں سات مائکرو فنانس بینکوں کی شمولیت۔

اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر سعید احمد نے ”مالی شمولیتی پروگرام“ کے اجزا پر پیش رفت سے شرکا کو آگاہ کیا۔انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان میں مالی خدمات سے محروم دیہی اور زرعی شعبوں کی قرضے کی ضروریات پوری کرنے والی جدت پسند پراڈکٹس اور ڈیلیوری ذرائع کی جانچ کے حوالے سے معیاری تجاویز کی وصولی کے منتظر ہیں۔انہوں نے کہا ”اس ایف آئی سی ایف راؤنڈ کا اصل مقصد موجودہ دیہی و زرعی ایکو سسٹم کے فعال کرداروں (مثلاً خام مال فراہم کرنے والوں، ایگری گیٹرز، پروسیسرز، مارکیٹرز وغیرہ) کی استعداد کو شناخت کرنا اور اس استعداد کو باضابطہ مالی اداروں کے ذریعے مواقع پیدا کرنے کے لیے بروئے کار لانا ہے“۔

شرکا کو بتایا گیا کہ درخواست دہندگان 10 اپریل 2014ء تک مکمل تجاویز جمع کرائیں گے۔ ڈی ایف آئی ڈی، نجی شعبے، اور اسٹیٹ بینک کے نمائندوں پر مشتمل ایک غیر جانبدار مشاورتی کمیٹی جائزے کے بعد چیلنج راؤنڈ میں کامیاب ہونے والوں کی منظوری دے گی۔ اس موقع پر تحریری شکل میں مفصل رہنما ہدایات تقسیم کی گئیں جو کہ اسٹیٹ بینک کی ویب سائٹ پر بھی دستیاب ہوں گی۔ اس موقع پر برطانیہ کے محکمہ بین الاقوامی ترقی (ڈی ایف آئی ڈی) پاکستان کے سربراہ رچرڈ منٹگمری، حبیب بینک لمیٹڈ کے صدر نعمان ڈار، دیگر بینکوں کے نمائندوں اور ایف آئی سی ایف مشاورتی کمیٹی کے ارکان محمود نواز شاہ اور منصور عارفین نے بھی خطاب کیا۔

متعلقہ عنوان :