شمالی وزیرستان میں رواں ماہ بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن ہوسکتا ہے ، خواجہ آصف ،حکومت نے پاک فوج کو تمام قسم کی کارروائیاں روکنے کی ہدایت کردی ہے‘ سعودی عرب سے کوئی دفاعی معاہدہ نہیں ہوا ، سینئر فوجی افسران وہاں تربیت کیلئے موجود ہیں ،وزیر دفاع کی صحافیوں سے گفتگو ، نجی ٹی وی کو انٹرویو

ہفتہ 8 مارچ 2014 02:48

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔8مارچ۔2014ء) وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ حکومت مذاکرات میں سنجیدہ ہے ، آپریشن آخری حربہ ہوگا ، حکومت نے پاک فوج کو تمام قسم کی کارروائیاں روکنے کی ہدایت کردی ہے ،سعودی عرب سے کوئی دفاعی معاہدہ نہیں ہوا ، سینئر فوجی افسران وہاں تربیت کیلئے موجود ہیں ، شام میں ہمارا اسلحہ استعمال نہیں ہوگا ۔پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ حکومت مذاکرات کے آ پشن پر سنجیدگی سے طالبان سے مذاکرات کررہی ہے اور خدانخواستہ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں آپریشن آخری حربہ ہوگا ، مذاکرات کے ساتھ ساتھ اگر دہشتگردی کی جاتی ہے تو اس کا بھرپور جواب دینگے ،حکومت نے پاک فوج کو کارروائیاں روکنے کی ہدایت کردی ہے اور ائیر سٹرائیک سمیت دیگر تمام کارروائیاں روک دی گئی ہیں تاکہ مذاکرات سنجیدگی سے آگے بڑھ سکیں ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ کوئی دفاعی معاہدہ نہیں ہوا اور نہ ہی سعودی عرب میں ہماری فوج تعینات ہے صرف تربیت کیلئے سینئر فوجی افسران سعودی عرب میں موجود ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کو ہم نے کہا ہے کہ وہ ہم سے اسلحہ خریدیں جو پاکستان تیار کررہا ہے جس میں سعودی عرب نے دلچسپی کا اظہار کیا ہے مگر تاحال کوئی حتمی چیز نہیں ہوئی ۔

انہوں نے کہا کہ شام میں پاکستان کا اسلحہ استعمال نہیں ہورہا اور نہ ہی ہوگا ۔ سعودی عرب نے پاکستان پر واضح کیا ہے کہ وہ اپنی دفاعی ضروریات کیلئے پاکستان سے اسلحہ خریدے گا مگر وہ کہیں اور استعمال نہیں ہوگا ۔ادھروزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ عسکریت پسند جنگ بندی کی خلاف ورزی سے گریز کریں ، اگر شدت پسندوں نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی تو مارچ کے مہینے میں ہی شدت پسندوں کیخلاف آپریشن شروع ہوجائیگا ، ممکنہ آپریشن میں اب مہینوں نہیں لگیں گے ۔

جمعہ کے روز وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک غیر ملکی خبررساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ طالبان کیخلاف رواں مہینے میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن شروع ہوسکتا ہے اور شدت پسندوں کو چاہیے کہ وہ اب جنگ بندی کی خلاف ورزی سے گریز کریں کیونکہ اب ممکنہ آپریشن میں مہینوں نہیں لگیں گے انہوں نے کہا کہ اگر جنگ بندی کا ا علان طالبان کی جانب سے کیا گیا ہے تو پھر مکمل جنگ بندی پر عمل بھی کیا جائے گا ۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ حکومت کی پہلی ترجیح خلوص دل سے نتیجہ خیز مذاکرات ہیں لیکن دوسری جانب سویلین کو ٹارگٹ کرنے کی کوشش کی تو پھر برداشت نہیں کیا جائے گا اور طالبان کے خلاف آپریشن ہوگا ،فوج کو مذاکرات میں شال کرنے کا ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ روزانہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کے باوجود خلوص دل سے نتیجہ خیز مذاکرات کیلئے اقدامات کررہے ہیں اور حکومت کی پوری کوشش اور خواہش ہے کہ مذاکرات مکمل طریقے سے کامیاب ہوجائیں اور ملک میں امن و امان کی صورتحال ہمیشہ ہمیشہ کیلئے قائم ہوجائے ۔

خواجہ آصف نے کہا کہ اگر خدانخواستہ مذاکرات کا سلسلہ مسلسل بند رہتا ہے اور اس میں کوئی پیشرفت نہیں ہوتی اور اس کے مقاصد بھی حاصل نہیں ہوتے تو پھر حکومت کے پاس لازمی طورپر کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں ہوگا۔ اور آپریشن ہی کیاجائے گا۔وفاقی وزیر نے کہا کہ آج بھی حکومت کی پہلی ترجیح مذاکرات ہیں اور پہلے دن سے ہم پورے خلوص دل سے مذاکرات میں شریک ہیں لیکن اس کے تناظر میں دوسری جانب مکمل خلاف ورزی جاری ہے تو اس حوالے سے فریق کو نشاندہی اور مذمت کرنی چاہیے۔

وزیر دفاع نے کہا کہ اب مذاکراتی ٹیم میں بڑے بااثر لوگ شامل ہورہے ہیں اور ان کو پورا وقت دیا جارہا ہے کہ مذاکرات کو نتیجہ خیز اور کامیاب بنایا جائے ۔انہوں نے کہا ہے کہ ہامری حکومت کا مقصد خون خرابہ نہیں ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ مذاکرات سے امن و امان کی صورتحال اور ماحول بنانا بہترین آپشن ہے لیکن دوسری جانب یہ مذاکراتی سلسلہ طویل کردیا گیا اور جنگ بندی کی خلاف ورزی بھی کی گئی تو پھر امن مذاکرات دیوار سے لگ جائیں گے ۔

خواجہ آصف نے کہا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کو صوبدید حاصل ہے کہ وہ مذاکرات کمیٹی میں کن لوگوں کو شامل کرلیں گے خواجہ آصف نے کہا کہ اب طالبان کو بھی چاہیے کہ وہ بھی مذاکرات کو خلوص دل سے آگے بڑھائیں لیکن اگر سویلین کو ٹارگٹ کیا گیا تو پھر برداشت نہیں کیا جائے گا ۔خواجہ آصف نے کہاکہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کیلئے حکومت کی تمام مشینری مدد کیلئے شامل ہوگی جس میں فوج انٹیلی جنس ادارے اور دیگر شامل ہیں ابھی تک فوج کو مذاکرات میں شامل کرنے کا حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔