35 لاپتہ افراد کی عدم بازیابی، وزیراعظم ‘ گورنر اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا عندیہ ، اٹھارہ مارچ تک لاپتہ افراد کی بازیابی بارے عدالتی حکم پر عمل اور انہیں بازیاب کرا یا جائے،عدالت عظمیٰ کا حکم ، عدالت کے صبر کا دامن چھوٹ رہا ہے شہریوں کے حقوق کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے اگر لاپتہ افراد بارے حکومت بتانا نہیں چاہتی تو اسے ملک بدر کردے یا کسی دوسرے ملک کا شہری قرار دے دے ،جسٹس جواد ایس خواجہ کے ریمارکس

بدھ 12 مارچ 2014 08:07

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔12مارچ۔2014ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے 35 لاپتہ افراد کی عدم بازیابی پر وزیراعظم پاکستان ‘ گورنر اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا عندیہ دیتے ہوئے اٹارنی جنرل پاکستان اور ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے کو حکم دیا ہے کہ اٹھارہ مارچ تک لاپتہ افراد کی بازیابی بارے عدالتی حکم پر عمل کیا جائے اور لاپتہ افراد بازیاب کرائے جائیں، آئین کے تحت عدالت کو عدالتی حکم پر عمل نہ کرنے والوں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا اختیار ہے یہ حکم جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے منگل کے روز جاری کای ہے جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت کے صبر کا دامن چھوٹ رہا ہے شہریوں کے حقوق کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے اگر لاپتہ افراد بارے حکومت بتانا نہیں چاہتی تو اسے ملک بدر کردے یا کسی دوسرے ملک کا شہری قرار دے دے انہوں نے یہ ریمارکس گزشتہ روز دیئے ہیں۔

(جاری ہے)

ایڈیشنل اتارنی جنرل شاہ خاور نے وزارت دفاع کا جواب پیش کیا تو جسٹس جواد نے کہا کہ بتادیں کہ حکومت کیا کرنا چاہتی ہے اور کیا نہیں شاہ خاور نے جواب پڑھ کر سنایا اور بتایا کہ عدالت نے گزشتہ روز جواب مانگا ہے یاسین سمیت تمام لاپتہ افراد کے حوالے سے کوششیں جاری ہیں بارہ افراد کو عدالت میں پیش کیا جاچکا ہے دو فوت ہوچکے ہیں کچھ سعودی عرب گئے ہیں بازیاب افراد کی تعداد سترہ ہوچکی ہے۔

تین جنوبی وزیرستان میں ہیں ان کے ثبوت ان کیمرہ پیش کئے جاسکتے ہیں استدعا کی جاسکتی ہے یاسین شاہ سمیت دیگر افراد کی بازیابی کیلئے وزارت داخلہ کو ہدایات جاری کی جائیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ وزارت داخلہ کو اس میں ملوث کرنے کی ہم ضرورت نہیں سمھجتے اگر آپ کہتے ہیں تو کرلیتے ہیں ہم خفیہ چیزوں کو اوپن نہیں کریں گے شہادت ہمیں ب تا دیں ہم میں سے ایک جج ان کا جائزہ لے لے گا ممکن ہے یہ ہمیں مطمئن کردے یاسین شاہ کے حوالے سے وزارت داخلہ کو کیوں ملوث کررہے ہیں اگر وزارت دفاع کی کوشش ختم ہوچکی ہے تو پھر باقی کام صوبائی حکومت کرے گی ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے لطیف یوسفزئی نے کہا کہ دس دسمبر 2013 ء کا آرڈر پڑھنا چاہتا ہوں جسٹس جواد نے کہا کہ وہ آرڈر ہمیں زبانی یاد ہے جس میں چیف ایگزیکٹو نہیں وزیراعظم‘ گورنر اور وزیر اعلیٰ کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ اگر انہوں نے عدالتی احکامات پر عمل نہ کیا تو ان کے خلاف حکم جاری کیا جائے گا اے جی کے پی کے نے کہا کہ آپ فائنڈنگ دے چکے ہیں کہ آرمی حکام یہ لوگ لے کر جاچکے ہیں ہم نے فوج سے پوچھنے کیلئے خط بھیجا ہے جسٹس جواد نے کہا کہ آپ بغیر کسی ایف آئی آر کے فوج سے کیا پوچھیں گے ۔

انہوں نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ بتائیں کہ اگر وفاق اور صوبائی حکومت بے بس ہوجائے تو عدالت کیا حکم جاری کرے‘ آپ کے پاس قانون موجود ہے اس کے تحت کارروائی کی جائے گی ۔ لطیف یوسفزئی نے کہا کہ حراستی مرکز لکی مروت میں موجود دو افراد میں سے ایک شخص سے اس کے اہل خانہ کی ملاقات ہوچکی ہے جبکہ دوسرے شخص سے ملاقات کیلئے کسی نے کوئی درخواست نہیں کی ہے مجھے شاباش دیں جسٹس جواد نے کہا کہ چار مہینے گزر گئے آپ نے کچھ نہیں کیا تو آپ کو شاباش دوں دس دسمبر 2013 ء سے قبل آپ کچھ کر دیتے تو قابل ستائش معاملہ ہوتا۔

ہمیں وہ احکامات بھی جاری کرنا پڑے جن کی ضرورت نہ تھی حکومت خود بھی کر سکتی تھی ہمیں روزانہ کیا پڑی ہے کہ ہم روزانہ ہدایت جاری کرتے رہیں ہم نے کسی پر کوئی ذمہ داری نہیں لگائی یہ ذمہ داری قانون نے آپ پر لگا رکھی ہے آپ اپنا فرض ادا کریں اگر قانون کہتا ہے کہ یہ آپ کی ذمہ داری ہے تو پھر ہم نے یہ ذمہ داری کیسے لگا دی۔ اٹارنی جنرل سمیت لاء افسران ہماری معاونت کریں عدالت نے اس پر آرڈر جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو تھوڑی دیر تک جاری کیا جائے گا بعد ازاں عدالت نے حکم جاری کرنے سے قبل ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے سے پوچھا کہ عدالت کیا کرے اور کیا حکم جاری کرے شہریوں کے حقوق کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے یہ کون سا نیا کام ہے جس کے لئے ہم کہہ رہے ہیں اگر زیر حراست شخص سے کسی نے ملنے کی درخواست نہیں کی تو اس زیر حراست شخص سے ہی اس کے رشتہ داروں کا پتہ کرکے ان کی ملاقات کرادیتے یہ آپ کے ملک کا شہری ہے کوئی تو آخر اس شخص کا آگے پیچھے ہوگا۔

صوبے اور وفاق کے پاس تمام تر وسائل ہونے کے باوجود ایک زیر حراست شخص کے رشتہ داروں تک کو تلاش نہیں کر سکے اور ان سے ملاقات نہیں کر سکے اے جی کے پی کے نے رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا ہے کہ طاہر شاہ کی ملاقات ہوگئی ہے نواب علی نے ملاقات کی ہے بیوی بھی ملاقات میں موجود تھی تین بیٹیوں اور ایک بیٹے نے بھی ملاقات کی ہے دوسرا شخص یوسف ولد اختر منیر ہے کوئی ان سے ملنے نہیں ایا یہ بت خیلہ ضلع مالاکنڈ کا رہنے والا ہے جسٹس جواد نے کہا کہ ملاقات کرانا ہمارا کام نہیں ہے اگر سرکار کو معمولی سی چیز کی سمجھ نہیں ہے اور عدالت کے کسی حکم کی منتظر ہے تو پھر زیر حراست شخص کے ساتھ نا انصافی ہے محبت شاہ کیس کی آج 33 ویں سماعت ہے لاہور اور کراچی سماعت میں بھی آیا تھا اے جے کے پی کے سے کہا کہ آئین و قانون کی موجودگی میں انہیں عدالت کے کس حکم کی ضرورت ہے یاسین شاہ کا بھی پتہ کریں بقیہ لوگوں کے بارے میں بھی بتایا جائے کہ وہ کہاں ہیں اور کب بازیاب ہوں گے؟ عدالت نے حکمنامہ تحریر کراتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخواہ حکومت نے رپورٹ دی ہے کہ دو زیر حراست میں سے ان کے اہل خانہ کی ملاقات کرادی گئی ہے جبکہ دوسرے سے تاحال کسی نے ملنے کی درخواست نہیں کی ہے یوسف کے رشتہ داروں کا پتہ چلایا جائے اور ان کی ملاقات کرائی جائے کیس کی سماعت اٹھارہ مارچ تک ملتوی کی جاتی ہے وفاقی حکومت عدالتی حکم پر عمل درآمد کو یقینی بنائے جس میں کہا گیا تھا کہ چیف ایگزیکٹو پاکستان ‘ گورنر اور چیف ایگزیکٹو کے پی کے کو احکامات جاری کئے گئے تھے وہ بھی عدالتی حکم پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں اور لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا جائے اور ذمہ داروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے جسٹس جواد ایس خواجہ نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ کیا وزیراعظم ‘ وزیر اعلیٰ اور گورنر کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں اے جی نے کہا کہ اٹھارہ مارچ کو ضرور کچھ نہ کچھ پیش رفت ہوگی۔

عدالت نے کہا کہ آئینی پروویژن موجود ہے کہ اگر کوئی حکم پر عمل نہیں کرتا تو ہم اس کے خلاف کارروائی کا اختیار رکھتے ہیں۔