وفاقی حکومت کی جانب سے تھر پار کر کے علاقہ مٹھی میں بھیجے جانے والے اناج میں بھی اقلیتوں کو نظر انداز کردیا گیا،مسلمان متاثرین کے لیے گوشت اور دیگر مرغ مسلم ، اکثریتی ہندو آبادی کوصرف دال پر ٹرخادیاگیا، دال بھی صرف چندخاندانوں تک ہی پہنچ پائی ہے، اکثریتی آبادی دال سے بھی محروم ہے، سبزیاں تک نہیں بھجوائی گئی ہیں ، بھجوایاجانے والا حلال گوشت ہندوؤں کے کسی کام کا نہیں ، یہ ا ن کے لیے حرام ہے اور کئی ایسی ادویات جوعمومی طورپر مسلمان استعمال کرتے ہیں وہ ہندو استعمال نہیں کرتے

بدھ 12 مارچ 2014 08:18

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔12مارچ۔2014ء) وفاقی حکومت کی جانب سے تھر پار کر کے علاقہ مٹھی میں بھیجے جانے والے اناج میں بھی اقلیتوں کو نظر انداز کردیا گیا اور مسلمان متاثرین کے لیے گوشت اور دیگر مرغ مسلم جبکہ اکثریتی ہندو آبادی کوصرف دال پر ٹرخادیاگیاہے ،اور دال بھی صرف چندخاندانوں تک ہی پہنچ پائی ہے اکثریتی آبادی دال سے بھی محروم ہے سبزیاں تک نہیں بھجوائی گئی ہیں کیونکہ بھجوایاجانے والا حلال گوشت ہندوؤں کے کسی کام کا نہیں کیونکہ یہ ا ن کے لیے حرام ہے اور کئی ایسی ادویات جوعمومی طورپر مسلمان استعمال کرتے ہیں وہ ہندو استعمال نہیں کرتے ۔

طبی ماہرین نے بھی تھر میں قحط کی سب سے بڑی وجہ غزائی قلت کونہیں بلکہ ہندوآبادی کا گوشت سے پرہیز کو وجہ قرار دیاہے جبکہ مسلم لیگ ن کی جانب سے وفاقی حکومت کی جانب سے بھجوائے جانے والے فنڈز کے نگران ارباب غلام رحیم نے بھی تھر میں قحط کی وجہ ہندوآبادی کا گوشت کوحرام سمجھتے ہوئے اس سے پرہیز کرناقراردیاہے مسلم لیگ کی رکن اسمبلی نیہال ہاشمی نے تھر کی زیادہ تر آبادی کو سبزی خور قرار دیا ہے۔

(جاری ہے)

ذرائع نے خبر رساں ادارے کوبتایاہے کہ تھرکے علاقے میں قحط سے پیداہونے والی صورت حال سے نمٹنے کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے جواناج بھجوایاگیاہے کہ وہ ہندو اکثریتی آبادی کے لیے شجرہ ممنوعہ کی حیثیت رکھتاہے اناج میں زیادہ تر گوشت اور دالیں بھجوائی گئی ہیں جبکہ سبزیاں نہیں بھجوائی گئی ہیں جس کی وجہ سے ہندوؤں کو صرف دال ہی کھاناپڑرہی ہے اور کئی دنوں سے دال کھانے سے کئی افراد بیمار پڑرہے ہیں ہندو آبادی کے لیے گوشت حرام ہے جبکہ دالوں میں سے بھی صرف دوطرح کی دال ہی کھانا ہندو اپنے لیے حلال سمجھتے ہیں ،تھر کے علاقے میں سبزیاں نہیں بھجوائی گئی ہیں اور صرف دال اور گوشت بھجوایاگیاہے دال مقدار میں کم ہے اور وہاں کی اکثریتی آبادی صرف دال ہی کھاسکتی ہے جس کی وجہ سے وہاں کے لوگوں کے لیے پریشانی اور بھی بڑھ گئی ہے ۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی رمیش لال نے خبر رساں ادارے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایاہے کہ تھرپاکراور مٹھی کے علاقے میں ہندوؤں کی آبادی 20لاکھ کے قریب ہے اور سب سے زیادہ متاثر ہندو ہوئے ہیں خوراک کے تھیلے بھی ان تک صحیح طورپر نہیں پہنچ پائے ہیں یہ درست ہے کہ سند ھ حکومت اپنے طورپر کام کررہی ہے لیکن اس میں بھی اس طرح سے کامیابی نہیں ہوئی ہے وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے وفاق کی جانب سے جاری کردہ فندز کے تھر میں نگران اور سابق وزیراعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم نے وزیر اعظم نواز شریف کی بریفنگ سے قبل غیر رسمی گفتگو میں میڈیا کوبتایاکہ تھر کی زیادہ تر آبادی ہندو ہے اس لیے وہ گوشت نہیں کھاتے اس لیے بھی ان کے اندربیماریوں کے خلاف دفاع بہت ہی کمزور ہے

متعلقہ عنوان :