تم ’بڑی اماں‘ مت بنو: مہم کا مقصد لڑکیوں کے لیے ’باسی‘ کا لفظ استعمال کرنے کی حوصلہ شکنی کرنا ہے،سربراہ فیس بک،مہم میں یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کیا کم عمر کی لڑکیوں کو جب یہ کہا جاتا ہے کہ ’تم اماں بننے کی کوشش مت کرو‘ تو ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہے،شیرل سینڈ برگ،اینا ماریا شاویز

جمعہ 14 مارچ 2014 07:51

لندن(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔14مارچ۔2014ء)فیس بْک کی سربراہ شیرل سینڈ برگ اور امریکہ کی گرل سکاوٴٹس کی سربراہ اینا ماریا شاویز نے ایک مہم کا آغاز کیا ہے جس کا مقصد لڑکیوں کے لیے ’باسی‘ کا لفظ استعمال کرنے کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق ذیل میں ٹیم ہیڈن یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کیا کم عمر کی لڑکیوں کو جب یہ کہا جاتا ہے کہ ’تم اماں بننے کی کوشش مت کرو‘ تو ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہے ؟نئی مہم کے رہنماوٴں کا دعویٰ ہے کہ ’باسی‘ (bossy) کا لفظ لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کے لیے بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے جس سے نوجوان بچیوں کو بڑی ہو کر لیڈر بننے میں مشکل ہوتی ہے۔

فیس بْک کی سربراہ کا کہنا ہے کہ یہ لفظ پہلی مرتبہ سنہ 1882 میں منظر عام پراس وقت آیا جب ایک خاتون مینجر کو ’ناقابال برداشت حد تک باسی‘ کہا گیا۔

(جاری ہے)

بین باسی (لفظ باسی نامنظور) نامی اس نئی مہم کی رہنماوٴں کا کہنا ہے: ’تم زیادہ ’بڑی‘ مت بنو جیسے فقرے صرف لڑکیوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ آپ اس بات کا اندازہ یوں لگا سکتے ہیں کہ راجر ہرگریوس کی بچوں کی کتابوں میں ’مِس باسی‘ کی طرز پر لڑکوں کے لیے ’مِسٹر باسی‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا۔

حتیٰ کہ سنہ 2008 تک یہ لفظ لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کے لیے چار گنا زیادہ استعمال ہوتا رہا ہے۔مشہور ریکروٹنگ کپمنی ’فریش مائنڈز‘ کی ڈائریکٹر ہیلن ٹرم بھی اس مہم کی سربراہوں سے اتفاق کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میں نے تو یہ لفظ ہمیشہ لڑکیوں اور خواتین کے لیے ہی استعمال ہوتے دیکھا ہے۔’ میرے تین بھائی ہیں لیکن میرے گھر والے صرف مجھے ہی ’باس‘ کا لقب دیتے تھے۔

گھر میں اصل میں اگر کسی کو باس کہا جا سکتا تھا تو وہ میرے والد تھے، لیکن انھیں کوئی بھی ’باس‘ نہیں کہتا تھا، کیونکہ وہ مرد تھے اور ہر کوئی یہی توقع کرتا تھا کہ وہ گھر کے باس ہیں اور انھیں ہی تمام گھرانے کی رہنمائی کرنی ہے۔ لیکن چونکہ میں لڑکی تھی اس لیے سارے مجھے ہی کہتے تھے کہ میں ’بڑی اماں‘ بنتی رہتی ہوں۔لیکن تمام خواتین ’بین باسی‘ مہم سے اتفاق نہیں کرتیں۔

برطانیہ کی شیفیلڈ یونیورسٹی سے منسلک ماہرِ لسانیات پروفیسر سارہ مِلز کہتی ہیں کہ ہمیں اس لفظ پر پابندی لگانے کی بجائے، اسے مثبت انداز میں استعمال کرنے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ ’لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آپ اس لفظ کو مثبت معنی میں استعمال کر ہی نہیں سکتے کیونکہ ہم ہمیشہ سے ہی اسے منفی معنی میں استعمال کرتے چلے آئے ہیں۔ ’باسی‘ کے لفظ سے آپ کے ذہن میں اپنی عمر سے زیادہ ’بڑی‘ باتیں کرنے والا بچہ ہی آتا ہے۔

پروفیسر مِلز کے خیال میں خواتین کے لیے ’پْشی ( pushy )‘ کا لفظ بھی غلط معنوں میں استعمال کیا جا رہا۔ ’ یہ لفظ استعمال کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نہیں چاہتے کہ خواتین زیادہ طاقتور اور پْر اعتماد انسان بنیں۔ جب لڑکیوں کو باسی یا پْشی کہا جاتا ہے تو کچھ لڑکیاں اسے اپنے دل پر لے لی ہیں اور ان میں خود اعتمادی نہیں پیدا ہوتی’ میں اپنے شعبے میں بے شمار خواتین کو جانتی ہوں جو نہ تو زیادہ ’اماں‘ بننے کی کوشش کرتی ہیں اور نہ ہی اپنی ’من مانی‘ کرواتی ہیں ، لیکن اس کے باوجود وہ کامیاب اور پر اعتماد لیڈرز ہیں۔

پروفیسر مِلز کا کہنا ہے کہ دفاتر میں خواتین کو اعتماد کی کمی کا سامنا زیادہ کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ لڑکیوں کو نوجوانی کے دنوں میں ایسی باتیں کہی جاتی ہیں کہ ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہے۔میرے خیال میں اب یہ ممکن نہیں رہا کہ آپ ’باسی‘ جیسے الفاظ پر پابندی لگا سکتے ہیں۔تاہم اگر اس لفظ کی جگہ ’پْراعتماد‘ اور ’بات منوانے والی خاتون‘ جیسے صیغے استعمال کیے جائیں تو ہم سب کے لیے اچھا ہوگا۔

متعلقہ عنوان :