کریمیا میں روس کی حمایت سے ریفرنڈم آج ہوگا،یوکرائن اور امر یکی اتحادیوں نے ریفرنڈم کو غیرقانونی اور غیرآئینی قرار دیکر مسترد کردیا، ریفرنڈم عالمی قانون کے عین مطابق ہے،صدر پیوٹن، روس کا جنوب مشرقی یوکرین پر چڑھائی کا کوئی منصوبہ نہیں،ماسکو اور مغرب کے درمیان اختلافات برقرار ہیں،سرگئی لاروف

اتوار 16 مارچ 2014 07:18

کیف،ماسکو (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔16مارچ۔2014ء)یوکرائن کے تنازعہ کے مرکزی خطے کریمیا میں روس کے ساتھ شمولیت کے معاملے پر ریفرنڈم آج ( اتوار )کو ہونے جارہا ہے ،روس ریفرنڈم کی حمایت کررہا ہے جبکہ یوکرائن اور امر یکی اتحادی اسے غیرقانونی اور غیرآئینی قرار دیکر مسترد کردیا ہے ۔ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق کریمیا میں روس کی حمایت سے آج اتوار کو استصواب رائے منعقد کیا جارہا ہے جس میں اس خودمختار علاقے کے شہری یہ فیصلہ کریں گے کہ وہ روس میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا یوکرین ہی کا بدستور حصہ رہنا چاہتے ہیں۔

روسی وزیرخارجہ سرگئی لاروف نے واضح کیا ہے کہ ان کے ملک کا جنوب مشرقی یوکرین پر چڑھائی کا کوئی منصوبہ نہیں۔انھوں نے یہ بات صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی ہے۔

(جاری ہے)

ان کا یہ بیان امریکی ہم منصب جان کیری سے لندن میں ملاقات کے بعد سامنے آیا جس میں دونوں وزرائے خارجہ نے یوکرین میں جاری بحران اور کریمیا کی پارلیمان کے اعلان آزادی کے تناظر میں تبادلہ خیال کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ روس کا یوکرین کے جنوب مشرقی علاقے پر چڑھائی کا نہ تو کوئی منصوبہ ہے اور نہ وہ ایسا کرسکتا ہے۔انھوں نے کہا کہ امریکا اور روس کے درمیان یوکرین میں جاری بحران کے خاتمے کے حوالے سے اختلافات بدستور موجود ہیں۔کئی گھنٹے تک جاری رہنے والی اس ملاقات سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ یہ مفید رہی ہے لیکن ان کا ماننا تھا کہ یوکرینی بحران پر دونوں ممالک کا ایک ویژن نہیں ہے۔

سرگئی لاروف نے اس موقف کا اعادہ کیا کہ روس کریمیا میں ہونے والے ریفرینڈم کا احترام کرے گا لیکن ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ پابندیوں سے دوطرفہ تعلقات متاثر ہوں گے اور ہمارے شراکت دار بھی یہ بات سمجھتے ہیں کہ پابندیوں کے منفی نتائج ہوسکتے ہیں۔یورپی اور امریکی لیڈر ماسکو پر مسلسل یہ زوردیتے چلے آرہے ہیں کہ وہ کریمیا سے اپنے فوجی دستوں کو واپس بلائے ورنہ اسے پابندیوں کا سامنا ہوسکتا ہے اوراسے عالمی سطح پر بھی سیاسی تنہائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

لاروف نے کہا کہ کریمیا کی روس کے لیے بالکل اسی طرح اہمیت ہے جس طرح فاک لینڈز کی برطانیہ کے لیے اہمیت ہے۔یادرہے کہ 1982ء میں ارجنٹینا کی فورسز نے فاک لینڈز پر چڑھائی کردی تھی اور اس کو مفتوح کر لیا تھا لیکن تب برطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر نے ان جزیروں کو واپس لینے کے لیے اپنی بحریہ کی ٹاسک فورس کو بھیجا تھا جس نے ارجنٹینا کی فوج کے ساتھ خونریز لڑائی کے بعد اس علاقے کا کنٹرول واپس لے لیا تھا۔

اب حالیہ برسوں کے دوران ارجنٹینا برطانیہ سے ان جزائر کی خودمختاری کے حوالے سے بات چیت کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔روسی وزیرخارجہ نے کریمیا کی صورت حال کا کوسوو سے بھی موازنہ کیا ہے۔امریکا کا کہنا ہے کہ کوسوو کی سربیا سے علاحدگی ایک خصوصی کیس تھا۔اس پر روس کا کہنا ہے کہ کریمیا کو بھی ایک خصوصی کیس سمجھا جانا چاہیے۔ اس دوران روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے گزشتہ روز اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کو بتایا ہے کہ یوکرائنی خطے کریمیا کے مستقبل میں ہونے والا ریفرنڈم عالمی قانون کے عین مطابق ہے ۔

کریملن نے ایک بیان میں کہا کہ ولادیمیر پیوٹن نے زور دیا کہ ریفرنڈم کے انعقاد کا فیصلہ عالمی قانون اور اقوام متحدہ چارٹر کی شرائط کے بالکل مطابق ہے ۔ در یں اثناء کریمیا کے ازخوداعلان کردہ لیڈر نے کہا ہے کہ ان کا علاقہ ریفرینڈم کے انعقاد کے بعد ایک سال کے عرصے میں روسی وفاق میں شامل ہوسکتا ہے۔کریمیا کے روس نواز وزیراعظم سرگئی اکسیونوف نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ''ریفرینڈم کے بعد روسی فیڈریشن میں شمولیت میں زیادہ سے زیادہ ایک سال لگ سکتا ہے' تاہم اکسیونوف نے کہا ہے کہ ''ہم نے یوکرینی اور کریمیائی پولنگ ماہرین سے سروے کرائے ہیں جن کے نتائج سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ 80 فی صد سے زیادہ ووٹر روسی فیڈریشن میں شمولیت کے حق میں ہیں''۔

انھوں نے مخالفین کے ان الزامات کو مسترد کردیا کہ وہ ماسکو کے حکم پر یہ ریفرینڈم کرارہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ہم یورپی قانون کے تمام پہلووٴں کی پاسداری کی ضمانت دیتے ہیں اور ووٹروں کو بھی تحفظ مہیا کیا جائے گا۔واضح رہے کہ یوکرین کے خودمختار علاقے کریمیا کی پارلیمان گذشتہ منگل کو 16 مارچ کو ہونے والے عوامی ریفرینڈم سے قبل ہی ''اعلان آزادی''کی منظوری دے چکی ہے۔

اس نے اس ضمن میں اقوام متحدہ کے چارٹر اور دوسری بین الاقوامی دستاویزات کی روشنی میں اعلان آزادی کیا تھا اور اس سلسلے میں کوسوو کے اعلان آزادی کا بھی حوالہ دیا تھا جس کے بارے میں 22 جولائی 2010ء کو اقوام متحدہ کے تحت عالمی عدالت انصاف نے قراردیا تھا کہ کسی ملک کے ایک حصے کی جانب سے یک طرفہ طور پر اعلان آزادی بین الاقوامی اقدار کی خلاف ورزی نہیں ہے۔مگر مغربی ممالک پہلے ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ کریمیا میں استصواب رائے کے انعقاد کو جائز تسلیم نہیں کریں گے۔ امریکی صدر براک اوباما نے خبردار کیا تھا کہ کریمیا کی روس میں شمولیت کے لیے ریفرینڈم یوکرین کے آئین اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہوگا۔

متعلقہ عنوان :