ملائشین طیارہ افغانستان یا پاکستان میں ہو سکتا ہے،ملائیشیاء کا طیارہ طالبان کے زیر کنٹرول پاکستان ،افغانستان کے علاقے میں ہو سکتا ہے، برطانوی اخبار کا دعوی ، ملائیشیا نے پاکستان ، افغانستان سے تحقیقات کیلئے سفارتی سطح پر اجازت مانگ لی ، لاپتہ طیارے سے نائن الیون طرز کا حملہ نہیں ہو سکتا،بھارت نے قیاس آرائیوں کو مسترد کردیا

منگل 18 مارچ 2014 06:52

لندن(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔18مارچ۔2014ء) برطانوی اخبار نے دعوی کیا ہے کہ ملائیشیاء کا لاپتہ ہونے والا مسافرطیارہ طالبان کے زیر کنٹرول پاکستان اور افغانستان کے علاقوں میں ہو سکتا ہے ۔برطانوی اخبار انڈمینڈیٹ نے ماہرین کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ طیارہ ملائیشیاء کے شمال مغربی علاقے سے اڑا اور اس کے آخری سگنل بھی وہاں سے ہی ملے ۔

جس سے ثابت ثابت ہو سکتا ہے طیارہ افغانستان پاکستان کے ان علاقوں میں ہے جہاں طالبان کا کنٹرول ہے اور طالبان بعد میں اس طیارے کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کر سکتے۔

برطانوی اخبار کے مطابق ملائیشین حکا م کو طیارے کی گمشدگی پرطالبان پر شبہ ہے ،جبکہ ملائیشین ائر لائن کے ایک ترجمان کاکہناہے کہ افغانستان اور پاکستان سے تحقیقات کے لئے سفارتی سطح پراجازت مانگ لی ہے ،اوریہ اجازت جلد ملنے کی توقع ہے ۔

(جاری ہے)

اخبارکے مطابق جدید ٹیکنالوجی کوئی کرشمہ نہ دکھا سکی۔ پچیس ممالک کی امدادی ٹیمیں دسویں روز بھی طیارے کا سراغ نہ لگا سکیں۔جبکہ غیر ملکی میڈیا نے ملائشیا کے لاپتہ ہونے والے طیارے کا ملبہ طالبان کے سر ڈال دیا۔ برطانوی اخبار بدستور پاکستان کے خلاف ڈھنڈورا پیٹنے میں مصروف ہیں پچیس ممالک، تینتالیس سے زائد بحری جہاز، دس سیٹلائیٹس اور جدید ترین ٹیکنالوجی دس روز میں بھی بدقسمت طیارے کا نشاں تک نہ ڈھونڈ سکیں۔

حکام نے تمام تر توجہ دہشت گردی کے حوالے سے تحقیقات پر مرکوز کر لی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ طیارے نے ریڈار سے بچنے کے لئے مطلوبہ بلندی سے پندرہ سو میٹر کم بلندی پر پرواز کی۔ ملائیشیا کی جانب سے جاری کیے گئے نقشے میں طیارے کی پاکستان میں لینڈنگ کو خارج از امکان قرار دیا گیا ہے۔ امریکی خفیہ ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ واقعات کے تانے بانے، پائلٹ اور معان پائلٹ تک جاتے ہیں۔

حکام نے امکان ظاہر کیا ہے کہ طیارے نے جبکہ آخری پیغام دیا تب وہ زمین پر ہی موجود تھا۔ ملائشین حکام نے بدقسمت جہاز کے زمینی عملے، انجئنیرز، پائلٹ کے لواحقین کو شامل تفتیش کیا ہوا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کے پائلٹ اور معاون پائلٹ کو اکٹھے پرواز پر جانے کا نہیں کہا تھا۔

مغربی میڈیا بدستور طیارے کی پاکستان میں موجود گی کا راگ الاپنے میں مصروف ہے۔

برطانوی اخبار نے الزام لگایا ہے کہ طیارہ طالبان کے قبضے میں ہو سکتا ہے۔غیر ملکی ماہرین نے الزام عائد کیا ہے کہ ملائیشیاء کا لاپتہ ہونے والا مسافرطیارہ طالبان کے زیر کنٹرول پاکستان اور افغانستان کے علاقوں میں ہو سکتا ہے۔ برطانوی اخبار انڈمینڈیٹ کے ماہرین کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ طیارہ ملائیشیاء کے شمال مغربی علاقے سے اڑا اور اس کے آخری سگنل بھی وہاں سے ہی ملے ۔

جس سے ثابت ثابت ہو سکتا ہے طیارہ افغانستان پاکستان کے ان علاقوں میں ہے جہاں طالبان کا کنٹرول ہے اور طالبان بعد میں اس طیارے کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔ادھربھارت نے لاپتہ ملائیشین طیارے سے کسی بھی ہندوستانی شہر پر نائن الیون طرز کا حملہ ہونے کی قیاس آرائیوں کی سختی سے تردید کر دی ہے۔

بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ نے طیارہ ڈھونڈنے میں مکمل تعاون کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا تھا کہ لاپتہ طیارے کی قسمت کے بارے میں واضح ہونا انتہائی ضروری ہے۔

لیکن جب ٹی وی چینل کی جانب سے سوال کیا گیا کہ کہیں اسے کسی ہندوستانی شہر کو نشانہ بنانے کے لیے تو اغوا نہیں کیا گیا؟، تو اس پر وزیر خارجہ سلمان خورشید نے جواب دیا کہ میرا نہیں خیال کہ ہمیں اتنا دور کا سوچنا چاہیے۔ان قیاس آرائیوں نے اس وقت جنم لیا تھا جب سابق امریکی ڈپٹی سیکریٹری آف اسٹیٹ اسٹروب ٹیلبٹ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ سمت، ایندھن کی مقدار اور رینج کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کچھ مشتبہ اغواکار 9/11 طرز پر ہندوستانی شہر کو نشانہ بنانے کی تیاری کی ہے۔

ہفتے کے اختتام پر کیے گئے ان کے اس پیغام نے سنسنی پھیلا دی اور خصوصاً ہندوستانی خبر رساں اداروں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور سلمان خورشید نے کہا کہ لوگوں کو اپنے خوف کو دور کرنے کے لیے جواب چاہئیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں امید جلد کسی ایسے نتیجے پر پہنچ جائیں گے جو قابل اعتماد حوصلہ افزا ہو۔ ٹائمز آف انڈیا نے کہا کہ سیکورٹی فورسز ذرائع نے اس خیال کو بکواس قرار دیا ہے کہ طیارہ کسی شہری علاقے کے قریب آئے گا اور زور دیتے ہوئے کہا کہ بحری اڈے نے اندمان کے جزیرے کے قریب اس کا پتہ لگایا تھا جو کسی بھی اہم ہندوستانی علاقے سے ہزار کلو میٹر سے زیادہ دور ہے۔

ایک فوجی انٹیلی جنس ذرائع نے اخبار کو بتایا کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی جہاز اندمان سمندر کے اوپر سے گزرے اور فوجی ریڈار کی زد میں نہ آئے کیونکہ یہاں اس وقت کافی ٹریفک ہوتا ہے۔

دوسری جانب افغنستان میں موجود نیٹو مشن کا کہنا ہے کہ وہ یہاں لاپتہ طیارے کو نہیں ڈھونڈ رہے جبکہ اسلام آباد سول ایوی ایشن اتھارٹی کا کہنا ہے کہ فلائٹ کبھی پاکستانی ریڈار پر نہیں آئی۔

ہندوستانی جہازوں نے گزشتہ ہفتے اندمان کے جزائر کے اطراف خاصی چھان بین کی لیکن اتوار کو انہوں نے یہ سرچ آپریشن بند کر دیا اور اب وہ ملائیشین حکام کی تازہ ہدایات کے منتظر ہیں۔ہندوستانی بحریہ کے ترجمان ڈی کے شرما نے پیر کو فرانسیسی خبررساں ادارے کو بتایا کہ آپریشن ابھی معطل کر دیے گئے ہیں اور ہر چیز روک دی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ ملائیشین حکام اب فیصلہ کر کے ہمیں بتائیں گے کہ کہاں جانا ہے لیکن فی الحال انہوں نے ہمیں رکنے کو کہا ہے۔