لاپتہ افراد کی ایف آئی آر کا معاملہ، وزیر دفاع سمیت اعلی حکام کی ساری رات مشاورت، صبح ساڑھے چار بجے ایف آئی آر کے اندراج کا باقاعدہ فیصلہ کیا گیا، اس نکتے پر اتفاق نہ ہوسکا کہ مقدمے کا اندراج وفاقی حکومت کے نام سے کرایا جائے،مقدمے کے اندراج میں سپریم کورٹ کے حکم کو ایف آئی آر کا حصہ بنایا گیا،ذرائع

جمعہ 21 مارچ 2014 04:11

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔21مارچ۔2014ء)سپریم کورٹ میں 35 لاپتہ افراد کے مقدمے کے حوالے سے ایف آئی آر درج کرنے کے معاملے پر وفاقی وزیر دفاع سمیت اعلی حکام ساری رات مشاورت کرتے رہے اور بالآخر صبح ساڑھے چار بجے ایف آئی آر کے اندراج کا باقاعدہ فیصلہ کیا گیا تاہم اس دوران بھی اس نکتے پر اتفاق رائے نہ ہوسکا کہ مقدمے کا اندراج وفاقی حکومت کے نام سے کرایا جائے بلکہ مقدمے کے اندراج میں سپریم کورٹ کے حکم کو ایف آئی آر کا حصہ بنایا گیا۔

سپریم کورٹ کے جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں 19 مارچ کو جب سپریم کورٹ نے 35 لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت شروع کی تھی تو اٹارنی جنرل نے اعتراف اور انکشاف کیا تھا کہ وفاقی حکومت صوبائی حکومت کیساتھ مل کر 35 لاپتہ افراد کو اٹھانے میں مبینہ طور پر ملوث صوبیدار امان اللہ و دیگر کیخلاف مقدمہ درج کرانے جارہی ہے جس پر عدالت نے اسے اچھی پیشرفت قراردیا تھا اور اگلے دن ایف آئی آر کی کاپی پیش کرنے کا حکم دیاتھا۔

(جاری ہے)

ذرائع نے ”خبر رساں ادارے“ کو بتایا کہ اٹارنی جنرل کے ذریعے یہ بیان داخل کرنے کے بعد وزیر درفاع اور دیگر حکام اس سوچ میں مبتلاء ہوگئے کہ فوج سے براہ راست ”پنگا لیا “جائے یا نہیں؟ اسی وجہ سے وزارت دفاع اور دیگر متعلقہ حکام جمعرات کی رات صبح تک لگاتار مشاورت کرتے رہے اس دوران انہوں نے سینئر قانونی ماہرین سے بھی مشاورت کی اور ان سے پوچھا کہ وفاقی یہ مقدمہ بھی درج کرانا چاہتی ہے اور براہ راست اس معاملے میں ملوث بھی نہیں ہونا چاہتی تو کیا کیا جائے؟ اس پر انہیں مشورہ دیا گیا کہ آپ بیان تحریری شکایت اور ایف آئی آر سمیت ہر معاملے میں ہر خاص دستاویز پر سپریم کورٹ کے کندھے پر رکھ کر تیر چلائیں اور سپریم کورٹ کے حکم کو ہی اولیت دیں جس پر وزارت دفاع نے رات گئے مشاورت کی اور صبح ساڑھے چار بجے وزیر دفاع کی تحریری شکایت تھانہ سیکرٹریٹ اسلام آباد کو ارسال کی گئی۔

ذرائع نے ”خبر رساں ادارے“ کو یہ بھی بتایا ہے کہ وزارت دفاع کے تحت حساس اداروں نے وزیر دفاع کے اس اقدام کو بہت عجیب خیال کیا ہے اور ان کے نزدیک وزیر دفاع کو یہ کام نہیں کرنا چاہئے تھا بلکہ عدالت سے وقت حاصل کیا جاتا اور جس حد تک بندے بازیاب ہوسکتے تھے وہ پیش کردئیے جاتے۔ ذرائع نے خبر رساں ادارے کو مزید بتایا کہ وزیر دفاع کے بیان کی دوسری جانب وزارت دفاع ہی کی جانب سے حساس اداروں نے ایک جواب بھی تیار کرلیا تھا جو ایف آئی آر کے اندراج کے اٹارنی جنرل کے بیان کے بعد جمع کرائے جانے سے روک دیا گیا اور اب یہ بیان ایف آئی آر کے اندراج کے بعد پیدا ہونے والی تازہ ترین صورتحال کے بعد ہی جمع کرایا جائے گا۔