افغان حکومت کے طالبان سے خفیہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہو رہے ہیں، برطانیہ ، افغانستان اب ماضی والا نہیں رہا طا لبا ن اگراب اقتدار میں آنے کی کوشش کریں گے تو انہیں زیادہ بھاری جانی اور مالی قیمت ادا کرنا پڑے گی، برطانو ی سفیر رچرڈ سٹیگ

جمعہ 21 مارچ 2014 03:58

کا بل (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔21مارچ۔2014ء)افغانستان میں برطانیہ کے سفیر رچرڈ سٹیگ کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کے طالبان سے خفیہ مذاکرات میں اہم پیش رفت ہوئی ہے اور اب حکومت شدت پسند رہنماوٴں کی زیادہ بڑی تعداد سے بات چیت میں مصروف ہے۔ افغانستان اب ماضی والا نہیں رہا طا لبا ن اگر اب اقتدار میں آنے کی کوشش کریں گے تو انہیں زیادہ بھاری جانی اور مالی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔

‘ ان کا کہنا تھا کہ اسی پیش رفت کی وجہ سے افغان طالبان میں تقسیم دکھائی دے رہی ہے۔رچرڈ سٹیگ کا کہنا تھا کہ ضروری نہیں یہ مذاکرات یعنی عوام کے سامنے ہوں: ’ہمارے پاس اس بات کے ثبوت ہیں کہ افغان حکومت اب زیادہ تعداد میں طالبان کے ساتھ رابطے میں ہے۔ کوئٹہ اور پشاور (مبینہ طالبان شوریٰ) میں اب احساس پیدا ہوا ہے کہ افغانستان اب ماضی والا نہیں رہا اور تبدیل ہوگیا ہے۔

(جاری ہے)

اگر وہ اب اقتدار میں آنے کی کوشش کریں گے تو انہیں زیادہ بھاری جانی اور مالی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ان کا کہنا تھا کہ خفیہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہو رہے ہیں جو کہ پائیدار امن کے لیے ضروری ہے۔امریکہ کے ساتھ مشترکہ سلامتی کے متنازع معاہدے سے متعلق افغانستان میں برطانوی سفیر کا کہنا تھا کہ یہ تو اب واضح ہوچکا ہے کہ افغان صدر حامد کرزئی اس پر دستخط نہیں کریں گے لیکن اپریل کے انتخابات لڑنے والے تمام امیدواروں نے انہیں ذاتی اور عوامی سطح پر بتایا ہے کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد اس معاہدے پر دستخط کر دیں گے۔

ہمیں اپنے تجزیے کی بنیاد پر یقین ہے کہ اس موسم گرما یا خزاں تک اس معاہدے پر دستخط ہو جائیں گے۔‘ان کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ اتحادی افواج کے انخلا کے بعد افغان فوج اور پولیس کو سالانہ چار ارب ڈالرز کی امداد دی جاتی رہے گی لہذا ان کے کمزور ہونے کا کوئی امکان نہیں۔رچرڈ سٹیگ نے کہا کہ تمام افغان صدارتی امیدوار پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتے ہیں۔

تاہم انہوں نے ان انتخابات میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کی مداخلت سے انکار کیا اور کہا کہ ’ہمارے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے۔افغان مزاحمت کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی ان انتخابات میں واضح طور پر تقسم ہو چکی ہے اور ان کے ایک رکن قطب الدین ہلال ان انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں جبکہ ایک دو اور دھڑے دیگر امیدواروں کی حمایت کر رہے ہیں: ’وہ طالبان سے مختلف مقام پر ہیں۔ تاہم طالبان نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا لیکن غیرملکی فوجیوں کے انخلا کے بعد کی نئی دنیا کو وہ کس طرح سے دیکھتے ہیں یہ ابھی واضح نہیں۔‘پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد میں کمی سے متعلق دونوں سفیر پرامید دکھائی دیے۔