فیس بک اور گوگل کے ذمہ داروں سے اوباما کی ملاقات،سوشل میڈیا مالکان دو گھنٹے کی ملاقات کے بعد خاموش ،انٹرنیٹ صارفین کا اعتماد بحال کرنے کی پوری کوشش کی جائے گی، اوباما

اتوار 23 مارچ 2014 07:32

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔23مارچ۔2014ء)امریکی صدر باراک اوباما نے فیس بک، گوگل اور سماجی رابطے کی دیگر ویب سائٹس کے ذمہ داروں سے ملاقات کی ہے تاکہ ان کے ساتھ جاسوسی سے متعلق امریکی پریکٹس اور پالیسی کے نئے خطوط پر \'\'فیڈ بیک\'\' لے سکیں کہ امریکی جاسوسی اداروں سے نجی زندگیاں کس حد تک متاثر ہوں گی۔ نیز سماجی رابطوں کیلئے عالمی سطح پر متحرک ویب سائٹس پر کیا اثر پڑے گا۔

خیال رہے کہ سوشل میڈیا کے ذمہ دار امریکی جاسوسی پالیسی اور پریکٹس سے ان دنوں سخت نالاں ہیں۔ اسی وجہ سے صدر اوباما نے دنیا بھر میں ہمہ نوع تبدیلیوں کی راہ ہموار کرنے والے گوگل کے ایگزیکٹو چئیرمین ایرک سکیمت اور فیس بک کے بانی مارک زکر برگ سے ملاقات کی ہے۔فیس بک کے بانی زکر برگ نے ابھی پچھلے ہی ہفتے امریکی جاسوسی پالیسی کے سوشل میڈیا پر مرتب ہونے والے اثرات پر تاسف کا اظہار کیا تھا کہ امریکا وسیع پیمانے پر آن لائن جاسوسی کے اقدامات کر رہا ہے۔

(جاری ہے)

وائٹ ہاوس کے ایک ذمہ دار نے اس اہم ملاقات کے بعد بتایا کہ ملاقات کے موقع پر صدر اوباما کہنا تھا \'\'امریکی سلامتی کیلیے کیے جانے والے اقدامات کے دوران بھی امریکی انتظامیہ عام لوگوں کے حقوق کے تحفظ اور اس تحفظ کے احساس کے حوالے سے ان کے اعتماد کے لیے پر عزم ہے۔\'\'تاہم دو گھنٹے تک وائٹ ہاوس میں صدر اوباما کے ساتھ جاری رہنے والی ملاقات کے بعد سوشل میڈیا سے متعلق ادراوں میں سے کسی کے سربراہ نے بھی میڈیا کے ساتھ بات نہیں کی ہے۔

امریکی قومی سلامتی کے ادارے کی جاسوسی کے حوالے سے پالیسی کے دائرے کو اس وقت نئے خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ جب بگھوڑے امریکی جاسوس ایڈورڈ سنوڈن نے اس ادارے کے بہت سے راز عالمی میڈیا کے سامنے واشگاف کر دئیے۔چند ماہ پہلے امریکی صدر نے قومی سلامتی ایجنسی کے ذمہ داران کے ساتھ دیگر تمام امریکی حساس ادراوں کے سربراہان کے ساتھ تفصیلی طور پر پالیسی میں ترامیم کا جائزہ لیا تھا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹس کو ڈیل کرنے والوں کے درمیان اس وقت تشویش ابھری جب یہ الزامات سامنے آئے کہ امریکی قومی سلامتی ایجنسی \'\' فیس بک سرور\'\' کے ذریعے بھی جاسوسی کی کوششیں کر رہی ہے۔ اس طریقے سے قومی سلمتی کا امریکی ادارہ دنیا بھر کے کروڑں کمپیوٹروں سے اپنی مرضی کا ڈیٹا حاصل کر سکتا ہے۔