بھارتی انتخابات میں کالے دھن کی بھرمار، ملک کی غالب اکثریت بدعنوانی سے بے چین ہو رہی ہے

اتوار 23 مارچ 2014 07:34

نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔23مارچ۔2014ء)بھارت میں 543 رکنی لوک سبھا کے لیے انتخابی سرگرمیاں شروع ہو گئی ہیں۔ مختلف حلقوں کے لیے امیدواروں کے ناموں کا اعلان ہوتے ہی ان حلقوں میں ہزاروں سیاسی کارکن رائے دہندگان کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے پوری طرح حرکت میں آ چکے ہیں۔انتخاب ایک مہنگا عمل ہے اور ان کے انعقاد کے لیے خود حکومت ایک کھرب روپے تک صرف کرتی ہے۔

انتخابی کمیشن نے امیدواروں کے لیے ذاتی طور پر اپنے حلقے میں ستر لاکھ روپے کے اخراجات کی حد مقرر کر رکھی ہے۔

بھارت کے ایک صنعتی ادارے ایسوچیم کے مطابق ہر حلقے میں کم از کم چار سنجیدہ امیدوار ہوتے ہیں اور ادارے کے اندازے کے مطابق ہر امیدوار اوسطاً پانچ کروڑ روپے انتخاب پر خرچ کرتا ہے۔ اس لحاظ سے تقریباً ایک سو دس ارب روپے آئندہ دو مہینوں میں انتخابات کے دوران خرچ کیے جائیں گے۔

(جاری ہے)

اخراجات کی حد مقرر ہونے کے سبب ان میں سے بیشتر رقم کالے دھن سے آئے گی۔رواں انتخابات میں بے ایمانی اور بدعنوانی سب سے اہم موضوع ہے۔ بھارت میں کھلی معیشت کا راستہ اختیار کیے جانے کے بعد ملک کی سیاست اور صنعتی نظام میں بدعنوانی ایک نئی اور حیرت انگیز اونچائی پر پہنچ گئی۔معروف جریدے ’دا ایکانومسٹ‘ کے مطابق پچھلے دس برس میں بد عنوان سیاست دانوں اور صنعت کاروں نے بے ایمانی رشوت اور کمیشن سے سیکڑوں ارب ڈالر بنائے ہیں۔

بدعنوانی پر نظر رکھنے والی عالمی تنظیم ’ٹرانس پیرینسی انٹرنیشنل‘ کے مطابق بھارت میں 54 فی صد لوگوں کا کہنا ہے کہ انھیں گذشتہ برس کسی نہ کسی مرحلے پر رشوت دینی پڑی ہے۔"بد عنوانی کے خلاف تحریک چلانے والے انّا ہزارے اور اروند کیجریوال جیسے رہنماوٴں کا کہنا ہے کہ انتخابی اخراجات بھارت میں بدعنوانی کا سب سے بڑا سبب ہیں۔

امیدواروں کو جیتنے کے لیے کروڑوں روپے صرف کرنے پڑتے ہیں اور جیتنے کے بعد ان کی ساری توجہ جائز اور ناجائز ہر طریقے سے صرف پیسے کمانے پر مرکوز ہوتی ہے۔

اس بار کے انتخابات میں بے ایمانی کیگیارہ ہزار کروڑ سے بیس ہزار کروڑ روپے تک صرف کیے جانے کا اندازہ ہے۔ آئندہ حکومت کتنی ایماندار ہوگی اس کا اندازہ ابھی سے لگایا جا سکتا ہے۔"ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ ملک کی غالب اکثریت بدعنوانی سے بے چین ہو رہی ہے۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق 96 فی صد لوگوں کا یہ خیال ہے کہ بد عنوانی کی وجہ سے ملک آگے نہیں بڑھ پا رہا ہے۔

ان کا یہ بھی خیال ہے کہ گذشتہ پانچ برس میں ملک میں بدعنوانی کی صورتحال پہلے سے بھی زیادہ خراب ہوئی ہے۔بے ایمانی کا یہ عالم ہے کہ کچھ عرصے پہلے تک کرناٹک کی کانوں سے دو ہزار ٹرک روزانہ بے روک ٹوک غیر قانونی طور پر خام لوہا نکال کر چین بر آمد کیا جا رہا تھا۔ جب تک کوئی آواز اٹھتی تب تک ریاست کے کئی سیاست داں اور بڑے بڑے سرکاری اہلکار دو ارب ڈالر سے زیادہ کما چکے تھے۔

تحقیقی ادارے ’گلوبل فینانشیل انٹیگر یٹی‘ کے اندازے کے مطابق بھارتی سیا ست دانوں، صنعت کاروں اور اہلکاروں نے 2007 سے ہر برس کالے دھن کے اوسطاً 52 ارب ڈالرغیر ممالک میں جمع کیے۔ یعنی سات برس میں بے ایمانی کے ساڑھے تین سو ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم باہر بھیجی گئی۔پچھلے برس امریکہ برطانیہ اور دیگر بعض ملکوں کی طرف سے سوئٹزر لینڈ، لگزم برگ اور جرمنی کے بینکوں پر دباوٴ پرنے کے بعد جرمنی اور سوئٹزر لینڈ نے وہاں پیسہ جمع کرنے والوں کی فہرست بھارتی حکومت کوسونپی تھی۔

لیکن کالا دھن جمع کرنے والوں کی یہ فہرست ابھی تک ظاہر نہیں کی گئی ہے۔ بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان بظاہر مفاہمت نظر آتی ہے۔انتخاب ایک مہنگا عمل ہے اور ان کے انعقاد کے لیے خود حکومت ایک ہزار کروڑ روپئے تک صرف کرتی ہے اپوزیشن بی جے پی نے موجودہ منموہن سنگھ کی حکومت کو تاریخ کی سب سے بدعنوان حکومت قرار دیا ہے لیکن خود اس کا دامن بھی صاف نہیں لگتا۔

احتسابی ادارے لوک پال کو بااثر نہ ہونے دینے اور اس کی تقرری میں ہر ممکن رکاوٹیں ڈالنے میں سبھی بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ یہ ادارہ ابھی تک تشکیل نہیں پا سکا ہے۔اب ایک بار پھر انتخابات کی سرگرمیاں ہیں۔ ماہرین کے اندازے کے مطابق نرینرد مودی اور سونیا گاندھی جیسے رہنماوٴں کے انتخابی جلسوں کے انعقاد پر 15کروڑ روپے سے لے کر 50 کروڑ تک روپے صرف ہوتے ہیں اور اس طرح کی ریلیاں ہر روز ہو رہی ہیں۔

بد عنوانی کے خلاف تحریک چلانے والے انّا ہزارے اور اروند کیجریوال جیسے رہنماوٴں کا کہنا ہے کہ انتخابی اخراجات بھارت میں بدعنوانی کا سب سے بڑا سبب ہیں۔ امیدواروں کو جیتنے کے لیے کروڑوں روپے صرف کرنے پڑتے ہیں اور جیتنے کے بعد ان کی ساری توجہ جائز اور ناجائز ہر طریقے سے صرف پیسے کمانے پر مرکوز ہوتی ہے۔اس بار کے انتخابات میں بے ایمانی کیگیارہ ہزار کروڑ سے بیس ہزار کروڑ روپے تک صرف کیے جانے کا اندازہ ہے۔ آئندہ حکومت کتنی ایماندار ہوگی اس کا اندازہ ابھی سے لگایا جا سکتا ہے۔

متعلقہ عنوان :