اسلام آباد ہائی کورٹ میں 19 بھرتیاں قواعد میں نرمی کر کے کی گئیں،انتظامیہ کا اعتراف،400 ملازمین میں اگر19 بھرتیاں ایسی ہو گئی ہیں تو بڑی بات نہیں ،سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں دعویٰ، بھرتیوں کیخلاف درخواست مسترد کرنے کی استدعا

پیر 24 مارچ 2014 06:53

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔24مارچ۔2014ء)اسلام آباد ہائی کورٹ انتظامیہ نے تسلیم کیا ہے کہ ہائی کورٹ میں کی گئی73 میں سے 19 ملازمین بھرتیاں قواعد میں نرمی کر کے کی گئیں تاہم دعویٰ کیا ہے کہ ہائی کورٹ کے ملازمین کی کل تعداد400 کے قریب ہے ان میں اگر19 بھرتیاں ایسی ہو گئی ہیں تو بڑی بات نہیں ہے جبکہ چیف جسٹس کو قواعد میں نرمی کا اختیار بھی حاصل ہے۔

یہ بات رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ میں ان بھرتیوں کے حوالے سے زیر سماعت مقدمہ میں جمع کرائے گئے جواب میں کہی ہے۔ سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق نائب صدر چوہدری محمد اکرم نے اپنے وکیل عارف چوہدری کے ذریعے درخواست دائر کی تھی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ عدالت عظمی ان بھرتیوں کو کالعدم قرار دے اور غیر قانونی بھرتیاں کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی ہدایت جاری کرے۔

(جاری ہے)

درخواست گزار نے موقف اپنایا تھا کہ2010 ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے دوبارہ قیام کے بعد ایک بھی ملازم میرٹ پر تعینات نہیں کیا گیا اور کئی ملازم تو دوسرے اداروں سے پسند وناپسند کی بنیاد پر ڈیپوٹیشن پر لئے گئے۔سپریم کورٹ نے مذکورہ درخواست کی سماعت کرتے ہوئے6 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے جواب طلب کیا تھا۔اب رجسٹرار ہائی کورٹ نے21 صفحات کا جواب داخل کرایا ہے جس میں کہاگیا ہے کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو تمام بھرتیوں کا اختیار ہے اور ہائی کورٹ کے رول 16 اور18 کے تحت وہ قواعد میں نرمی کا بھی اختیار رکھتے ہیں ۔

اس لئے ان کے اس فیصلے کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔جواب میں کہاگیا ہے کہ ہائی کورٹ میں ججوں کی تعداد میں اضافہ کی وجہ سے مزید ملازمین کی ضرورت تھی اور اگر معمول کا طریقہ کار اختیار کیا جاتا تو اس میں کئی ماہ لگ سکتے تھے جس سے عدالتی اور انتظامی کام متاثر ہونے کا خدشہ تھا اس لئے19 ملازمین قواعد میں نرمی کر کے تعینات کئے گئے تھے جن میں سے10 ڈیپوٹیشن پر لئے گئے ۔

اس کے علاوہ 30 ملازمین کلاس فور کے تھے جن کے لئے تحریری امتحان کی ضرورت نہ تھی کیونکہ یہ ملازم امیدواروں میں سے زیادہ مناسب ہونے کی بنیاد پر بھرتی کئے جاتے ہیں ۔جواب میں کہاگیا ہے کہ دائر کردہ درخواست بدنیتی پر مبنی ہے ۔درخواست گزار دو سال تک ان بھرتیوں پر خاموش رہا اور اب اچانک اسے پٹیشن دائر کرنے کا خیال کیسے آگیا اور درخواست گزار متاثرہ فریق نہیں ہے۔اس لئے عدالت عظمی سے استدعا ہے کہ وہ دائر کردہ درخواست خارج کردے اور درخواست گزار پر جرمانہ عائد کیا جائے ۔

متعلقہ عنوان :