ایک دو روز میں طالبان شوریٰ سے ملاقات ہو گی جس میں حکومت اور طالبان کے منتخب مذاکرات کاروں کے علاوہ خفیہ ادارے آئی ایس آئی کا نمائندہ بھی شریک ہوسکتا ہے، پروفیسر ابراہیم ، کور کمانڈر کانفرنس میں کہا گیا تھا کہ فوج براہ راست مذاکرات کا حصہ نہیں بنے گی اور حکومت جو بھی فیصلہ کرے گی وہ اسے قبول کرے گی، البتہ ایجنسیوں کی نمائندگی جس میں سب سے بڑی ایجسنی آئی ایس آئی ہے مذاکرات میں شامل ہو سکتی ہے،برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو

منگل 25 مارچ 2014 06:58

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔25مارچ۔ 2014ء) طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے کہا ہے کہ ایک دو روز میں طالبان شوریٰ سے ملاقات ہو گی جس میں حکومت اور طالبان کے منتخب مذاکرات کاروں کے علاوہ خفیہ ادارے آئی ایس آئی کا نمائندہ بھی شریک ہوسکتا ہے۔برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کر تے ہوئے انھوں نے کہا کہ کور کمانڈر کانفرنس میں کہا گیا تھا کہ فوج براہ راست مذاکرات کا حصہ نہیں بنے گی اور حکومت جو بھی فیصلہ کرے گی وہ اسے قبول کرے گی، البتہ ایجنسیوں کی نمائندگی جس میں سب سے بڑی ایجسنی آئی ایس آئی ہے مذاکرات میں شامل ہو سکتی ہے۔

پروفیسر ابراہیم کا کہنا تھا کہ طالبان سے مذاکرات میں پہلی ترجیح مستقل امن کا قیام یا کم ازکم جنگ بندی میں توسیع کروانا ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان کے مقامی میڈیا میں یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ حکومتی کمیٹی طالبان کی قید میں موجود سابق گورنر پنجاب اور پاکستان کے سابق وزیراعظم کے بیٹے شہباز تاثیر اور سید علی حیدر گیلانی اور اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیس اجمل خان کی بازیابی کے لیے بات کریں گے۔

لیکن طالبان کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ ’جب ہم گذشتہ بار طالبان کی شوریٰ کے ساتھ مذاکرات کے لیے گئے تو حکومت کے قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر طالبان نے جواب میں خاموشی اختیار کی تھی ان کی طرف سے نہ ہاں میں جواب ملا نہ ہی ناں میں۔پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ طالبان اس انتظار میں ہیں کہ پہلے حکومت ان کے غیر عسکری قیدیوں کو رہا کرنے کا سلسلہ شروع کرے تو پھر وہ بھی ایسا کریں۔

پروفیسر ابراہیم نے تسلیم کیا کہ طالبان اور فوج کے درمیان تناوٴ تو ہے اور یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ ماضی میں فوج نے معاہدے کیے اور اگر اس وقت فوج یہ ذمہ داری حکومت کو دیتی ہے اور اپنے آپ کو حکومت کا پابند قرار دیتی ہے تو یہ اچھی بات ہے اس سے پیچیدگیاں حل ہو سکتی ہیں۔واضح رہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے حکومتی کمیٹی پورٹس اور شیپنگ کے وفاقی سیکریٹری حبیب اللہ خان خٹک، ایڈیشنل چیف سیکریٹری فاٹا ارباب محمد عارف، وزیرِاعظم سیکریٹریٹ میں ایڈیشنل سیکریٹری فواد حسن فواد اور پی ٹی آئی کے رستم شاہ مہمند پر مشتمل ہے۔

یاد رہے کہ وزیرِاعظم پاکستان نواز شریف نے 13 مارچ کو کہا تھا کہ طالبان کے مطالبات پر غور ہو رہا ہے لیکن آئین اور قانون سے بالاتر کسی بھی مطالبے کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔