نیلم جہلم پن بجلی منصوبہ 2015ء میں مکمل کر لیا جائے گا جس سے ملک کو فوری 100ارب اور سالانہ 50ارب روپے کا فائدہ ہوگا،پی اے سی کو بریفنگ،منصوبے کیلئے 54گاڑیوں کی منطوری دی گئی مگر 87گاڑیاں خریدی گئیں،دو بڑی گاڑیاں وزیروں کی تحویل میں ہونیکا انکشاف، کمیٹی نے گاڑیوں کی مکمل فہرست طلب کر لی،ریلوے کی طرف سے ایک منصوبہ میں بچ جانے والی تین کروڑ کی رقم واپس نہ کرنے پر وزارت کو خط لکھنے کافیصلہ

بدھ 26 مارچ 2014 06:57

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔26مارچ۔ 2014ء)پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کو بتایا گیا ہے کہ نیلم جہلم پن بجلی منصوبہ 2015ء میں مکمل کر لیا جائے گا جس سے ملک کو فوری 100ارب اور اس کے بعد سالانہ 50ارب روپے کا فائدہ ہوگا،منصوبے کیلئے 54گاڑیوں کی منطوری دی گئی تھی مگر 87گاڑیاں خریدی گئیں جن میں سے دو بڑی گاڑیاں وزیروں کے پاس ہیں،جس پر کمیٹی نے گاڑیوں کی مکمل فہرست طلب کر لی ہے جبکہ ریلوے کی طرف سے ایک منصوبہ میں بچ جانے والی تین کروڑ کی رقم واپس نہ کرنے پر وزارت کو خط لکھنے کافیصلہ کیا گیا ہے۔

منگل کے روز پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چےئرمین کمیٹی سید خورشید شاہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا،اجلاس میں وزارت پانی وبجلی کے ذیلی اداروں،واپڈا اور این ٹی ڈی سی کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا،کمیٹی کو بتایا گیا کہ منگلا ڈیم کے دفتر سے کیشےئر 4سال کے بلوں کی وصولیوں کی رقم 45لاکھ 46ہزار روپے لیکر فرار ہوگیا،جس پر حکام نے بتایا کہ مرکزی مجرم کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور وہ جیل میں ہے،اس کیخلاف مقدمہ چلایا جارہا ہے۔

(جاری ہے)

کمیٹی کو بتایا گیا کہ نیلم جہلم منصوبے کا کنٹریکٹ دینے میں ڈیڑھ سال کا عرصہ لگا ، اس کنٹریکٹ میں بلاسٹنگ اور ڈرل شامل تھا،تاہم منصوبے کو بہتر بنانے کیلئے اس میں ٹرنل بورنگ لگائی گئی۔حکام نے بتایا کہ منصوبے کو 2015ء میں مکمل کرلیا جائے گا،شفافیت کیلئے ٹھیکیدار کو کہا گیا کہ وہ عالمی نیلامی کریں۔انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ دو سال پہلے مکمل کیا جائے گا،جس سے ملک کو 100ارب روپے کا فائدہ ہوگا،اس منصوبے سے 50ارب روپے کا سالانہ فائدہ ہوا کرے گا۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ نیلم جہلم منصوبے کیلئے 54گاڑیاں خریدنے کی منظوری دی گئی،جس میں ایک سوزوکی خیبر،چار سوزوکی مہران،31تھری ڈور جیپس،11سوزوکی پوٹھوہار،4کمیونٹی وین اور3بسیں شامل تھیں مگر منصوبے کیلئے87گاڑیاں خریدی گئیں،جس میں 15ٹویوٹا سیلون،30ٹویوٹا لینڈ کلوزر،30ٹویوٹا ہائی لیکس،9مزدا بسز اور3بسیں شامل ہیں جس پر36کروڑ 43لاکھ روپے کی لاگت آئی،لگژری گاڑیاں خریدنے پر 28کروڑ82لاکھ روپے اضافی خرچ کئے گئے جس کی منظوری نہیں دی گئی تھی۔

وزارت کے حکام نے بتایا کہ پہلے انکوائری کی گئی تھی کہ گاڑیاں خریدنے سے فائدہ ہوگا جب یہ ثابت ہوا کہ گاڑیاں خریدنے سے 8کروڑ روپے کی بچت ہوگی تو پھر گاڑیاں خریدی گئیں۔رکن کمیٹی میاں عبدالمنان نے کہا کہ گاڑیاں کام کی بجائے کسی اور مقصد کیلئے خریدی گئیں،اسی وجہ سے ڈبل کیبن کی بجائے لینڈ کروزر خریدی گئیں۔آڈٹ حکام نے کہا کہ ان میں سے دو گاڑیاں وزیروں کے پاس ہیں،کمیٹی نے گاڑیوں کے استعمال کی تفصیلی فہرست مانگ لی ہے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ نیلم جہلم منصوبے کیلئے حکومت نے نیشنل انشورنس کمپنی لمیٹڈ سے انشورنس لینے کیلئے کہا گیا مگر انہوں نے کسی نجی کمپنی سے انشورنس لی اور نو ماہ کے اضافی پیسے دئیے کیونکہ انشورنس جنوری 2004ء سے شروع ہونا تھی مگر تاخیر کے باعث وہ دسمبر2004ء سے شروع ہوئی مگر رقم انشورنس کمپنی کو رقم جنوری2004ء سے دی گئی،جس پر وزارت کے حکام نے کہا کہ ہم نے کوئی اضافی پیسے نہیں دئیے،این آئی سی ایل نے ری انشورنس کیلئے سپورٹ نہیں دی اور انکار کردیا،اس لئے ہم نے دوسری کمپنی سے رابطہ کیا،کمیٹی نے اس حوالے سے تحریری انکار کی دستاویزات طلب کرلی ہے،کمیٹی کو بتایا گیا کہ عمومی سامان کی خریداری کیلئے اضافی رقم بھی دی اور کارکردگی کی گارنٹی بھی دی،آڈٹ حکام نے کہا کہ ان دونوں میں سے ایک چیز دی جاتی ہے دونوں نہیں،کمیٹی نے اس معاملے پر وزارت قانون وانصاف سے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ وزارت ریلوے کے ساتھ ملکر رینی کینال پروجیکٹ پر روہڑی خانپور کے قریب ایک پل بنایا گیا،شروع میں اس کیلئے14کروڑ17لاکھ روپے کی لاگت بتائی گئی تاہم جب منصوبے کی لاگت کا دوبارہ جائزہ لیا گیا تو لاگت کم ہوکر 11کروڑ16لاکھ روپے ہوگئی،جس پرریلوے سے اضافی رقم مانگ رہے ہیں لیکن نہیں دی جارہی،ایک بار ہمیں چیک دیا گیا لیکن وہ بھی باؤنس ہوگیا،پی اے سی نے پی اے سی سیکرٹریٹ کو ہدایت کی کہ وہ وزارت ریلوے کو رقم کی واپسی کیلئے خط لکھے،کمیٹی کو بتایا گیا کہ جناح ہائیڈروپاور پروجیکٹ 2013ء میں مکمل کرلیا ہے اور اب تک اس سے 423ملین یونٹ پیدا ہوئے ہیں،جس سے ساڑھے چار ارب روپے کمائے جاچکے ہیں۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ لاہور میں ایک ہی قسم کے دو منصوبوں میں ایک منصوبے کو کم رقم پر جبکہ دوسرے کو زائد رقم پر ٹھیکے پر دیا گیا۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ مقامی کمپنی نے ایک منصوبے کیلئے کم رقم کی بولی دی اور دوسرے پر انہوں نے زیادہ دی جس کی وجہ سے ہمیں ایک مقامی کمپنی کو ٹھیکہ دینا پڑا جبکہ دوسرا ٹھیکہ عالمی کمپنی کو دینا پڑا کیونکہ مقامی کمپنی کے پاس ٹھیکہ مکمل کرنے کی استعداد نہیں تھی۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ 3چوری کے واقعات میں 1کروڑ43لاکھ روپے کا سامان چوری ہوا،حکام نے بتایا کہ ہم نے پیسے ریکور کرلئے ہیں تاہم ملازمین کو نوکری سے فارغ نہیں کیا گیا،ایف آئی آر درج کروائی تھی اور جس میں پولیس نے کہا تھا کہ یہ ڈاکہ ہے اور ملازمین کا اس سے کوئی تعلق نہیں،کمیٹی نے حیرانگی کا اظہار کیا کہ پیسے بھی نکل آئے اور ذمہ داری بھی نہ ہوئی۔

متعلقہ عنوان :