خضدار میں اجتماعی قبروں سے ملنے والی 14 لاشوں کے ڈی این اے ٹیسٹ میں تاخیر پر حکومت پنجاب سے دو ہفتوں میں جواب طلب،بلوچستان سے لاپتہ افراد کی عدم بازیابی پر چیف سیکرٹری بلوچستان سے تفصیلی جواب طلب ،حاضر سروس آرمی افسران کیخلاف مقدمات صرف فوجی عدالتوں میں ہی چلائے جاسکتے ہیں،فیصلوں کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع ہو سکتا ہے،جسٹس امیر ہانی مسلم،لاپتہ افراد کی بازیابی انتہائی ضروری تاہم امن خراب کرنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا وقت کی اہم ضرورت ہے،ریمارکس

جمعرات 27 مارچ 2014 07:15

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔27مارچ۔ 2014ء)سپریم کورٹ نے خضدار میں اجتماعی قبروں سے ملنے والی 14 لاشوں کے ڈی این اے ٹیسٹ میں تاخیر پر حکومت پنجاب سے دو ہفتوں میں جواب طلب کرتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو بھی نوٹس جاری کردیا ہے جبکہ بلوچستان سے لاپتہ افراد کی عدم بازیابی پر چیف سیکرٹری بلوچستان سے تفصیلی جواب طلب کیا ہے اور چیف سیکرٹری کو ہدایت کی ہے کہ وہ لاپتہ افراد کے حوالے سے ایف سی کے وکیل عرفان قادر ، ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان سے مشترکہ اجلاس منعقد کرکے اس کی رپورٹ بھی عدالت میں پیش کی جائے جبکہ دو رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے ہیں کہ حاضر سروس آرمی افسران کیخلاف مقدمات صرف فوجی عدالتوں میں ہی چلائے جاسکتے ہیں ۔

سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے فیصلوں کیخلاف رجوع کیا جاسکتا ہے قانون کی کتابوں میں ذاکر مجید مفرور ہے عدالت اسے لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل نہیں کرسکتی ۔

(جاری ہے)

مقدمہ سماعت کے لیے کوئٹہ سپریم کورٹ رجسٹری برانچ بھجوانا ہمارے اختیار سے باہر ہے اس حوالے سے چیف جسٹس پاکستان کو ہی درخواست دی جاسکتی ہے بلوچستان کی بدامنی دور کرنے کیلئے ہر سطح پر اقدامات اٹھانا ہوں گے لاپتہ افراد کی بازیابی انتہائی ضروری ہے تاہم ملکی امن خراب کرنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق آہنی ہاتھوں سے نمٹنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔

انہوں نے یہ ریمارکس بدھ کے روز دیئے ہیں دوران سماعت چودہ لاشوں کے حوالے سے ڈی این اے ٹیسٹ بارے عدالتی حکم پر رپورٹ پیش کرتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے عدالت کوبتایا کہ 14 لاشوں کے 44نمونے حاصل کرکے پنجاب فرانزک لیبارٹری بھجوائے گئے ہیں جن کے نمونے ایک ہفتے میں میچ کرنا انتہائی مشکل اور ناممکن ہے لیبارٹری نے چار سے پانچ ماہ اس کام کے لیے مانگے ہیں ۔

بلوچستان حکومت نے جلد ڈی این اے کے لیے حکومت پنجاب کو خط بھی ارسال کیا ہے ایف سی کے وکیل عرفان قادر نے عدالت کو بتایا کہ صوبائی حکومت نے حاضر سروس آرمی افسران جن کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ لاپتہ افراد کے حوالے سے مبینہ طور پر ملوث ہیں کیخلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کرنے بارے منظوری دے دی تھی اور معاملہ آرمی حکام کو بھجوا دیا گیا ہے ان کی چیف سیکرٹری سے تاحال میٹنگ نہیں ہوسکی ہے اس لئے لاپتہ افراد بارے مزید پیش رفت پر وہ کچھ نہیں کرسکتے ۔

سماجی تنظیم کے رہنما نصراللہ بلوچ نے عدالت کو بتایا کہ آرمی عدالتوں میں مقدمات چلنے کے باعث ان کو انصاف نہیں مل سکے گا اس پر عدالت نے کہا کہ فوجی عدالتیں افسران کو رہا یا سزا دیتی ہیں تو دونوں صورتوں میں متاثرہ فریق سپریم کورٹ سے رجوع کا حق رکھتے ہیں اور انہیں اس حوالے سے اپیل کا حق حاصل ہے آپ نے ٹربیونل میں درخواست دینا تھی وہ دی ہی نہیں نصراللہ نے کہا کہ ذاکرمجید کو لاپتہ کی گئی ہے اس پر عدالت نے کہا کہ وہ لاپتہ نہیں مفرور ہیں 2008ء میں اس نے چھ سنگین مقدمات میں ضمانت حاصل کی اس کے بعد وہ فرار ہوگیا اس کو ہم لاپتہ قرار نہیں دے سکتے آپ کو ہائی کورٹ کے فیصلے پر اعتراض ہے تو آپ اس کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرسکتے ہیں ۔

بعدازاں عدالت نے حکومت پنجاب کے ڈی این اے ٹیسٹ میں زیادہ وقت لگائے جانے پر جواب طلب کیا ہے اور دو ہفتوں بعد ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم دیا ہے ۔