کوئٹہ ،آواران میں قیامت خیز زلزلہ کو 6ماہ گذرنے کے باوجود متاثرین کیلئے گھروں کی تعمیر نہ ہوسکی ،اگر حکومت غیرملکی امدادی اداروں اور کارکنوں کو علاقے تک رسائی دیتی تو شاید بہت سے مسائل کا فوری حل ممکن ہوتا ،ڈپٹی سپیکر بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو

جمعرات 27 مارچ 2014 07:02

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔27مارچ۔ 2014ء) بلوچستان کے ضلع آواران میں آنے والے قیامت خیز زلزلہ کو 6ماہ سے زائد کا عرصہ گذرنے کے باوجود متاثرین کیلئے گھروں کی تعمیر نہ ہوسکی ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی نے حکومت کی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر حکومت زلزلے کے فوری بعد غیرملکی امدادی اداروں اور کارکنوں کو زلزلہ زدہ علاقے تک رسائی کی اجازت دی جاتی تو شاید بہت سے مسائل کا فوری حل ممکن ہوتا برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے بلوچستان صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا ہے کہ زلزلے کو چھ ماہ گزرجانے کے باوجود حکومت اب تک بے گھر ہونے والے متاثرین کیلئے ایک مکان بھی تعمیر نہیں کر سکی اور یہ حکومت کی کمزوری اور ناکامی ہے انہوں نے کہا کہ حکومتی سطح پر دو تین بار پی سی ون بن چکے ہیں کیونکہ مسئلہ یہ آرہا تھا کہ یہ زلزلہ زون ہے حکومت یہ کوشش تھی کہ ایسے مکانات تعمیر کرکے دیئے جائیں تاکہ انہیں مستقبل میں کسی قسم کی مشکلات نہ ہوں اس لئے مکانات کے ڈیزائن پر کوئی اتفاق نہیں ہورہا تھاجس کی وجہ سے تاخیر ہوئی اور حکومتی کاموں میں اس طرح کی سست روی ہوتی ہے جس کی وجہ ابھی تک متاثرین کے گھروں کی تعمیر کا سلسلہ وفاقی و صوبائی حکومت سطح پر شروع نہ ہوسکا کیونکہ مکانات کی طرز تعمیر پر کوئی اتفاق نہیں پارہا ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ زلزلہ متاثرہ علاقے میں 30ہزار مکانات کی تعمیر ہونا ہے جس کیلئے صوبائی حکومت کے پاس تو اتنے وسائل نہیں تاہم اپنی بساط کے مطابق حکومت کوششوں میں مصروف ہے اس سلسلے میں وفاقی حکومت نے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے کہ جتنے بھی اخراجات آئیں گے ان میں پچاس فیصد شیئر وفاق کا ہوگا چھ ماہ میں متاثرین کو گھر فراہم نہ کرنے پر ہمیں افسوس ہے کہ آج بھی وہ بے سروسامانی کی ذندگی گذار رہے ہیں اس سلسلے میں دو تین روز قبل بھی وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سے ملاقات کی اور انہیں زلزلہ متاثرین کو درپیش مشکلات سے آگاہ کیا حکومتی سست روی پر وزیراعلیٰ بلوچستان کو بھی تشویش ہے اور اسی سست روی کی وجہ سے ہمیں مشکلات کا سامنا ہے اگر حکومت زلزلے کے فوری بعد غیرملکی امدادی اداروں اور کارکنوں کو زلزلہ زدہ علاقے تک رسائی کی اجازت دی جاتی تو بہت سے مسائل فوری طور پر حل ہوسکتے تھے اب کیا وجہ تھی شاید سیکیورٹی اور وہاں جاری مزاحمت اور علاقے میں امن و امان کی خراب صورت کے پیش نظر اجازت نہیں دی گئی تاکہ خدانخواستہ ان کے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ نہ ہوجائے لیکن اگر ان اداروں کو اجازت دیدی جاتی تو علاقے کیلئے اچھا ہوتا حالانکہ ملکی این جی اوز اور مخیر حضرات نے وہاں کام کیا ہے لیکن نجانے بین الاقوامی اداروں کے ساتھ کیا مسئلہ تھا کہ انہیں اجازت نہیں دی گئی آرمی نے بہت اچھا کام کیا حالانکہ متاثرین کی امداد و بحالی کی سرگرمیوں کے دوران ان پر حملے بھی ہوئے ان کے کئی جوان شہید بھی ہوئے لیکن اس کے باوجود امدادی سرگرمیاں جاری رکھی گئیں اور اس کے انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوئے لوگوں کو بھی یہ احساس ہوا کہ یہ ان کی امداد و مدد کیلئے آئے ہیں اب تو سیکیورٹی کے حوالے سے صورتحال ماضی کی نسبت کافی بہتر ہے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ زلزلہ متاثرین کے مکانات کی تعمیر کیلئے کوئی حتمی تاریخ تو وزیراعلیٰ اور چیف سیکرٹری ہی دے سکتے ہیں تاہم میں اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کررہا ہوں اور میری بھاگ دوڑ وزیراعلیٰ چیف سیکرٹری و دیگر حکام تک جاری ہے اور پر امید ہوں کہ اللہ کرے کہ آئندہ آٹھ دس روز میں کام شروع ہوجائے تاکہ یہ مسئلہ حل ہونے کی جانب جائے ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا اب جو طریقہ کار وضع کیا گیا ہے اس کے مطابق قسط وار متاثرین کو رقدم ادا کی جائے گی مکان کی تعمیر کے ابتدائی مرحلے کی چھان بین کے بعد ہی دوسری قسط جاری ہوگی اس طرح ہر متاثرہ خاندان کو رقم ادا کی جارہی ہے تاکہ وہ اپنے گھر خود بنائے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت اگر رقم مہیا کردیتی ہے تو پھر لوگ وہاں مستری ،مزدور اور مٹیریل وغیرہ کا انتظام خود ہی کرلیں گے تاخیر کی وجہ مکانات کی طرز تعمیر اور نقشہ پر اتفاق کا نہ ہونا تھا کہ اس طرز تعمیر میں کس طرح کے مٹیریل کا استعمال ہونا چاہیئے اور نہیں ہونا چاہیئے اور اس پر لاگت کیا آئے گی سب سے بڑا مسئلہ اس پر تھا جہاں تک سرکاری عمارتوں اور انفراسٹراکچر کی بحالی کی بات ہے تو جو اسکول مکمل طور پر منہدم ہوگئے تھے ان کی تعمیر کا کام تین ماہ قبل ہی شروع ہوگیا ہے اور تقریباً اپنی تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں مین بیلہ آواران روڈ کی تعمیر کا کام بھی جاری ہے متاثرہ ہسپتال کی تعمیر کا سلسلہ بھی جاری ہے مزید تقریباً ڈیڑھ سو کے قریب اسکول اور ہسپتال ہیں جو زلزلہ میں متاثر ہوئے ان کی تعمیر و مرمت سے متعلق پی سی ون تیار ہوشکاہے اور گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ بلوچستان سے ملاقات بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی کہ کب کام شروع کرنا ہے اس حوالے وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے یقین دہانی کرائی ہے اور پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کو ہدایت کی ہے کہ فوری طور پر اس حوالے سے اجلاس منعقد کرایا جائے اور کام شروع کیا جائے ۔