جھوٹ اور سچ کی جانچ لاشعور میں پنہاں؟، سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنے کے لیے اپنے فطری رد عمل پر بھروسہ کریں کیونکہ یہ صلاحیت آپ کے لاشعور میں پنہاں ہوتی ہے، نئی تحقیق

اتوار 30 مارچ 2014 07:03

لندن(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔30مارچ۔ 2014ء)ایک نئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنے کے لیے اپنے فطری رد عمل پر بھروسہ کریں کیونکہ یہ صلاحیت آپ کے لاشعور میں پنہاں ہوتی ہے۔برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق نفسیات کے ماہرین کا خیال ہے کہ ہم جھوٹوں کو اگر پہچاننا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے پہلے ردِ عمل پر بھروسہ کرنا چاہیے نہ کہ غور و خوض کے بعد اس سے متعلق نتیجہ اخذ کیا جائے۔

ماہر نفسیات کا خیال ہے کہ عام طور پر ہم جھوٹوں کو پہچاننے میں بہت ماہر نہیں ہیں اور اس حوالے سے ہماری قابلیت سکہ اچھالنے سے نتیجہ اخذ کرنے کے مقابلے میں ذرا بہتر ہے۔’سائیکلوجیکل سائنس‘ نامی جریدے میں شائع ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہماری کامیابی کی شرح اس وقت بڑھ جاتی ہے جب ہم اپنے ذہنی لاشعور کا استعمال کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے کی ماہر نفسیات ڈاکٹر لیانے ٹین برنکے نے کہا کہ ’لاشعور کے بارے میں جس چیز نے ہماری دلچسپی بڑھائی وہ یہ ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ جھوٹ جانچنے کی ہماری درست صلاحیت اس سے تو نہیں جڑی۔

’اس لیے اگر جھوٹ جانچنے کی ہماری صلاحیت ہمارے شعور کا حصہ نہیں خواہ ہم اس کے بارے کتنا ہی غور کیوں نہ کریں تو اس کا مطلب ہے کہ یہ کہیں اور ہے اس لیے ہم نے سوچا کہ اس کی ممکنہ توجیح ہمارا لاشعور ہو سکتا ہے۔جب ہم کسی کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں کہ آیا وہ جھوٹ بول رہا ہے یا نہیں تو ہم ان باتوں سے اندازہ لگاتے ہیں کہ کہیں وہ نظریں تو نہیں چرا رہا یا پھر نروس یا پریشان تو نظر نہیں آ رہا ہے۔

بہر حال تحقیق میں یہ پایا گیا ہے کہ یہ طریقہ درست نہیں ہے اور اس طریقے سے صرف 50 فی صد ہی صحیح اندازہ لگانے کی شرح ہے۔یونیورسٹی کے ماہرینِ نفسیات اس بات پر حیران تھے کہ لنگور جیسے بعض دودھ پلانے والے حیوانات جھوٹ کا پتہ چلا لیتے ہیں جو کہ ارتقا کے اصول کے تحت کسی جاندار کے زندہ رہنے کی صلاحیت اور عمل تولید کی کامیابی کی صلاحیت کو بڑھا دیتا ہے۔

ڈاکٹر برنکے اور ان کے ساتھیوں نے اس کی جانچ کے لیے ایک تجربہ کیا کہ آیا لاشعور زیادہ جھوٹ پکڑتا ہے یا پھر شعور۔انھوں نے اس کے لیے 72 طلبہ کو ایک ویڈیو دی جس میں ایک غیر حقیقی جرم میں ملوث مشتبہ افراد کو دکھایا گیا تھا۔ ان میں سے بعض لوگوں نے کسی کتاب کی الماری سے 100 ڈ الر کے نوٹ چرائے تھے جبکہ بعض نے نہیں لیکن سب سے کہا گیا تھا کہ ایسا ظاہر کریں کے انھوں نے چوری نہیں کی ہے۔

جب اس میں شامل طلبہ سے پوچھا گیا کہ ان میں سے کون جھوٹ بول رہا ہے اور کون سچ تو صرف 43 فیصد نے جھوٹوں کو اور 48 فیصد نے سچوں کو پہچانا۔پھر اس کے بعد محققین نے لا شعور کو اس سے جوڑنے کا کام کیا اور ان طلبہ کو مشتبہ افراد کی تصویر دکھائی اور کہا کہ انھیں دیکھ کر ان کے ذہن میں کیسے الفاظ آتے ہیں جیسے جھوٹا، بے ایمان یا پھر ایماندار اور سچا۔اس جانچ کے دوران ان کا نتیجہ زیادہ بہتر رہا اس میں انھوں نے لاشعور کا استعمال کرتے ہوئے اپنی فطری جبلت پر بھروسہ کیا تھا۔اس طرح ڈاکٹر ٹین برنکے کا کہنا ہے کہ ’یہ ہماری جبلی یا فطری فیصلے پر منحصر ہے اور یہی ہمیں کہتا ہے کہ ہمیں کس کے ساتھ دوستی کرنی چاہیے اور کس کے ساتھ ڈیٹ پر جانا چاہیے۔‘