سال 2004میں پرویز مشرف نے اس ملک پر جنگ مسلط کی جو بدقسمتی سے آج تک جاری ہے، پروفیسر ابراہیم ، مشرف کہتے تھے کہ یہ چند لوگ ہیں جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے جس سے ان سب کا فوری خاتمہ ہوگا لیکن وہ آج تک جاری ہے جس میں اب تک ہزاروں کی تعداد میں قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں پرویز مشرف کے حکومت کے خاتمے کے بعد زرداری حکومت نے بھی پرویز مشرف کی پالیسی کو جاری رکھا جبکہ آج وزیر اعظم نواز شریف نے اس جنگ کے خاتمے کیلئے مذاکرات کی راہ اپنائی ہے اور ان کی خواہش ہے کہ ملک سے خونریزی کا خاتمہ ہو اور بات چیت ذریعے مسائل و مشکلات کئے جا سکے،بنوں میں اجتماع سے خطاب اور میڈیا سے بات چیت

پیر 31 مارچ 2014 06:45

بنوں( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔31مارچ۔ 2014ء)طا لبان مذاکرات کمیٹی کے ممبر پروفیسر ابراہیم خان نے بنوں میں دوروزہ تبلیغی و تربیتی اجتماع عام سے خطاب اور میڈیا سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سال 2004میں پرویز مشرف نے اس ملک پر جنگ مسلط کی اور کہتے تھے کہ یہ چند لوگ ہیں جن کے خلاف جنگ کیا جا رہا ہے جس سے ان سب کا فوری خاتمہ ہوگا لیکن بدقسمتی وہ جنگ آج تک جاری ہے جس میں اب تک ہزاروں کی تعداد میں قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں پرویز مشرف کے حکومت کے خاتمے کے بعد زرداری حکومت نے بھی پرویز مشرف کی پالیسی کو جاری رکھا جبکہ آج پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اس جنگ کے خاتمے کیلئے مذاکرات کی راہ اپنائی ہے اور ان کی خواہش ہے کہ ملک سے خونریزی کا خاتمہ ہو اور بات چیت ذریعے مسائل و مشکلات کئے جا سکے انہوں نے کہا کہ قیدیوں کی فہرست کی تحقیق جاری ہے اور وزیر اعظم نے اس بات کا اعلان کیا ہے کہ بچوں اور خواتین قیدیوں کا مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں اگر کوئی کوئی ثابت کریں کہ فلاں جگہ خواتین اور بچے قید میں ہیں تو ان کو فی الفور رہا کیا جائیگا حکومت اور طالبان کے ساتھ جاری مذاکرات کے بہت سے فوائد سامنے آئے ہیں کئی ہفتوں سے ملک میں کسی قسم کا دہشت گردی کا واقعہ رونما نہیں ہوا ہے مذاکرات کی کا میابی وہاں سے شروع ہوئی جب یکم مارچ کو طالبان کی طرف سے جنگ بندی کا اعلان کیا گیا اور اسکے فوراً بعد دوسرے دن حکومت کی جانب سے آپریشن بند کیا گیا جسکی وجہ سے دونوں اطراف سے اعتماد کی بحالی جاری ہے اور جاری مذاکرات میں حکومتی مذاکراتی کمیٹی کی ملاقات طالبان شوریٰ کے ساتھ براہ راست کیا گیااور اسکے بعد دونوں کمیٹیوں کی ملاقات وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے کیا گیا اور انکو تمام صورتحال سے آگاہ کیا ہے آب اسکے بعد وزیر اعظم نواز شریف اور حکومتی عہدیداروں کا مشترکہ اجلاس ہوگا جسمیں تمام صورتحال پر بات چیت کی جائیگی اور اسکے بعد دوبارہ پھر طالبان کے ساتھ ملاقات ہوگی اور اسکے ساتھ رفتہ رفتہ اعتماد بحال ہورہا ہے اور اسکے بعد قیدیوں کے بارے میں بات چیت کی جائیگی اور انشاء اللہ قیدیوں کی رہائی کا سلسلہ بھی شروع ہوجائیگا انہوں نے کہا کہ قوم کو ہم امن کا تحفہ دینگے انہوں نے کہا کہ طالبان شوریٰ نے ہمیں یقین دہانی کرائی ہے کہ ہم سنجیدگی سے مذاکرات کرانا چاہتے ہیں اور سکے لئے تمام گروپس کے ساتھ بات چیت ہورہی ہیں اور اسمیں کافی حد تک طالبان کامیاب ہوچکے ہیں انہوں نے کہا کہ طالبان کو حکومت کی جانب سے کچھ شکایات ضرور ہے لیکن حکومت بھی کوشش کر رہی ہے کہ انکا ازالہ کر سکیں اور ہم کو طالبان کی طرف سے یقین دہانی پر اعتماد ہے اور مذاکرات کا یہ عمل آگے بڑھے گا اور خدا نے چاہا ہم امن کی طرف بڑھنگے تو انشاء اللہ کوئی بھی گروپ اس سے باہر نہیں رہیگا انہوں نے حکومت اور طالبان کی براہ راست مذاکرات کے جگہ کی بارے میں کہا کہ طالبان نے کسی خاص جگہ کا مطالبہ نہیں کیا ہے انہوں جنوبی وزیرستان وانا کا علاقہ مثال کی طور پر پیش کیا ہے انہوں نے کہا ہے کہ اگر حکومت کو وہاں پر کسی قسم کی مشکلات کا سامنا ہو تو وہ جہاں پر مذاکرات کرنا چاہتے ہیں اور جو علاقہ انکے لئے موزوں ہو ہمارا کوئی اعتراض نہیں ہوگا انہوں نے کہا کہ دونوں فریقین کی جانب سے مطالبات پیش کئے جا رہے ہیں اور ہم اس میں اتفاقی نقطے کی طرف بڑھ رہے ہیں کہ دونوں جانب کی مطالبات تسلیم ہو اس کی کیا صورت بنے گی اور قیدیوں کی رہائی مسئلہ بھی ایسا ہی ہے کہ دونوں اطراف سے مطالبات سامنے آ رہے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ انشاء اللہ بہت جلد دونوں اطراف سے قیدیوں کی رہائی کا سلسلہ شروع ہو جائیگا جنگ بندی میں توسیع کے بارے میں انہوں نے کہا کہ عملاً جب تک مذاکرات چل رہے ہیں جنگ بندی رہے گی اور اس میں تو سیع کیلئے بات چیت کی جائیگی۔