موجودہ قومی ٹیکسٹائل پالیسی کی معیاد رواں برس ختم ہو رہی ہے،عباس آفریدی،نئی پالیسی پر کام جاری ہے جو2019ء تک کام کرے گی،آٹھ برس قبل شروع کیا جائے والا ٹیکسٹائل سٹی کا منصوبہ ابھی بھی نامکمل ہے،وفاقی وزیر کی قائمہ کمیٹی میں گفتگو

بدھ 2 اپریل 2014 04:28

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔2اپریل۔2014ء)وفاقی وزیر برائے ٹیکسٹائل انڈسٹری عباس آفریدی نے کہا ہے کہ موجودہ قومی ٹیکسٹائل پالیسی کی معیاد رواں برس ختم ہورہی ہے جبکہ نئی ٹیکسٹائل پالیسی پر کام جاری ہے جو کہ 2019ء تک کام کرے گی،کمیٹی کو بتایا گیا کہ آٹھ برس قبل شروع کیا جانے والا ٹیکسٹائل سٹی کا منصوبہ ابھی بھی نامکمل ہے،نیشنل بینک سے2.2ارب روپے قرض لئے گئے جو کہ ختم ہوگئے مزید1.5ارب روپے قرضہ کے حصول کیلئے کوششیں جاری ہیں،ملازمین کو قرض میں سے 3ارب روپے سالانہ تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں،واہگہ بارڈر پر کسانوں کا ٹی سی پی سے تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں،واہگہ بارڈر پر کسانوں کا ٹی سی پی سے غیر معیاری کپاس خریدنے کا مطالبہ ناجائز ہے،ان کو بارہا ہدایات جاری کیں تاہم انہوں نے عمل نہیں کیا اور اب ان کی کپاس ناقص وغیر معیاری ہے،کمیٹی نے جلد ہی ٹیکسٹائل سٹی کا دورہ کرنے اور آئندہ اجلاس وہاں منعقد کرنے کی ہدایت کردی۔

(جاری ہے)

منگل کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ٹیکسٹائل انڈسٹری کا اجلاس چےئرمین کمیٹی خواجہ غلام رسول کوریجہ کی زیر صدارت قومی اسمبلی میں منعقد ہوا،اجلاس کے دوران کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے نیشنل ٹیکسٹائل انڈسٹری کے پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمد کا کہنا تھا کہ گزشتہ2برس میں ایچ ای سی سکالر شپ کی کمی کے باوجود25 طلباء بیرون ممالک زیر تعلیم ہیں جن میں بڑی تعداد جمہوریہ چیک میں ہے جو کہ وہاں سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں جبکہ آئندہ4برس میں کوششیں یہ ہیں کہ ٹیکسٹائل کی صنعت میں زیادہ سے زیادہ پی ایچ ڈی اساتذہ میسر آسکیں،ایک برس میں ہر پروگرام میں تمام صوبوں سے500 طلباء فارغ التحصیل ہوتے ہیں،ٹیکسٹائل سے متعلقہ تعلیمی اداروں کی نگرانی ومعائنہ اعلیٰ ثانوی تعلیمی کمیشن(ایچ ای سی) اور پاکستان انجینئر برنگ کونسل کرتے ہیں،رخسانہ شاہ سیکرٹری وزارت ٹیکسٹائل انڈسٹری نے کمیٹی کے اراکین کو بتایا کہ پورٹ قاسم کے مقام پر 1,250 ایکڑ رقبہ پر محیط ایک ٹیکسٹائل سٹی بنایا جارہا ہے جس پر2.2ارب روپے کی لاگت آئے گی،اسپر وفاقی وزیر برائے ٹیکسٹائل انڈسٹری عباس خان آفریدی نے کہا کہ مذکورہ منصوبہ2004ء سے شروع ہے تاہم ابھی تک مکمل نہیں ہوسکا،منصوبہ کو ابھی تک گیس فراہم نہیں کی جاسکی،منصوبہ عوامی ونجی شعبہ کے تعاون کے تحت جاری ہے جس میں40فیصد حصص حکومت پاکستان،16فیصد سندھ حکومت اور باقی4فیصد فی ادارہ کے حساب سے مختلف اداروں کے ہیں،چیف ایگزیکٹو آفیسر ٹیکسٹائل سٹی محمد حنیف کبتی نے کہا کہ گیس بجلی اور پانی کی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث صارفین سرمایہ کاری کو تیار نہیں ہیں تاہم اب اس حوالے سے کوششیں جاری ہیں جس کے تحت وہاں ابتدائی سطح پر سہولیات فراہم کی جارہی ہیں اور وزارت پٹرولیم نے9مکعب میٹر کیوبک فٹ گیس کی فراہمی کی یقین دہانی کروائی ہے،اس منصوبہ کے لئے 2012ء تک نیشنل بینک سے پہلے2ارب روپے قرضہ لیا گیا تھا تاہم ابھی مزید1.5ارب قرضہ کیلئے کوششیں جاری ہیں،فی الوقت25 ملازمین کام کر رہے ہیں جن میں انجینئرز بھی شامل ہیں جن کی ماہانہ تنخواہ کا تخمینہ3ارب ہے جو کہ وسائل نہ ہونے کے باعث قرض لی گئی رقوم سے ادا کی جارہی ہے،سیکرٹری وزارت ٹیکسٹائل انڈسٹری رخسانہ شاہ نے بتایا کہ منصوبہ کے سابق سی ای او4برس تعینات رہے اور ان کی ماہانہ تنخواہ5لاکھ روپے تھی جس میں وہ اضافہ کروا لیتے تھے تاہم اس بنا پر ان کو فارغ کردیاگیا،اس موقع پر کمیٹی کو بتایا گیا کہ موجودہ چیف ایگزیکٹو آفیسر حنیف کبتی صاحب کو4لاکھ سے زائد تنخواہ دی جارہی ہے،اس پر سردار محمد شفقت حیات نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ8برس کے بعد منصوبہ نامکمل ہے واضح کیا جائے کہ منصوبہ چل بھی سکتا ہے یا نہیں اگر نہیں تو منصوبہ کو بند کردیا جائے تاکہ سرکاری خزانہ پر مزید بوجھ نہ بڑھے،سیکرٹری وزارت ٹیکسٹائل انڈسٹری رخسانہ شاہ کا کہنا تھا،586 ملین روپے کی لاگت سے19ایکڑ رقبہ پر1984 سے لاہور گارمینٹس سٹی کا منصوبہ زیر تعمیر ہے جبکہ کراچی گارمینٹس سٹی جو کہ300ایکڑ پر تعمیر ہونا ہے اس کیلئے حالیہ801 ملین روپے کا پی سی ون بھیجا گیا ہے جبکہ حکومت سابقہ2پی سی ون مسترد کر چکی ہے جس کی وجہ سے منصوبہ پر منفی اثرات پیدا ہو رہے ہیں،ملک میں سالانہ13سے 15 ملین کپاس کی گانٹھیں پیدا کی جارہی ہیں جبکہ پولی فےئر فائبر کی پیداوار650,000ٹن ہے،765 پروسینگ یونٹ اور18,000 بنائی کی مشینیں نصب ہیں،سیکرٹری ٹیکسٹائل انڈسٹری کا کہنا تھا کہ اختیارات کے باعث دیگر وزارتیں وزارت ٹیکسٹائل انڈسٹری کی طرف سے معاہدے کرتی ہیں،اس پر اکثر وزارت کو ایڈوائزیز جاری کرنا پڑتی ہیں،انہوں نے کہا کہ بھارت کے ساتھ بہتر اقتصادی تعلقات اور این ڈی ایم اے معاہدہ میں حکومت کو درخواست کی ہے کہ بھارت کے ساتھ کاروباری واقتصادی تعلقات میں مقامی صنعتوں بالخصوص ٹیکسٹائل کی صنعت کے مفادات کا بھی تحفظ کیا جائے کیونکہ اس حوالے سے ٹیکسٹائل کی صنعت کو کافی مسائل کا سامنا ہے،وزارت ٹیکسٹائل انڈسٹری حکام کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے ٹیکسٹائل انڈسٹری پر سیلز ٹیکس کے نفاذ سے صنعت کو نقصان ہو رہا ہے،انڈسٹری پر سیلز ٹیکس کو صفر کردینا چاہئے اور اس حوالے سے سیلز ٹیکس واپسی کے نظام کو بھی ختم ہونا چاہئے کیونکہ متحرک سرمایہ کے منجمد ہونے سے کافی مسائل کا سامنا ہوگا،وفاقی وزیر ٹیکسٹائل انڈسٹری کا کہنا تھا کہ ملک کے پاس جی ایس پی پلس اور چین میں فروری(لیبر کاسٹ) میں واضح اضافہ سے فائدہ اٹھانا چاہئے،وفاقی وزیر عباس آفریدی نے بتایا کہ وزارت نے حکومت کو سفارش کی ہے کہ بھارت سے سستے درآمد ہونے والے یارن پر 5فیصد ڈیوٹی کا نفاذ کیا جائے تاکہ مقامی صنعت کے مفادات کا تحفظ ممکن بنایا جاسکے،سیکرٹری وزارت ٹیکسٹائل انڈسٹری کا کہنا تھا کہ واہگہ بارڈر کے پاس کسانوں کی جانب سے ہڑتال اور ٹی سی پی کو ان سے کپاس خریدنے کا مطالبہ ناجائز ہے کیونکہ حکومت وزارت کی جانب سے بارہا تلقین کے باوجود انہوں نے ضروری سٹیڈرڈز کا خیال نہیں رکھا اور ان کے پاس موجود کپاس نہایت غیر معیاری ہے،وفاقی وزیر برائے ٹیکسٹائل انڈسٹریز عباس خان آفریدی نے اراکین کمیٹی کو بتایا کہ موجودہ ٹیکسٹائل پالیسی رواں برس ختم ہوجائے گی جبکہ آئندہ ٹیکسٹائل پالیسی کی تیاری کا کام جاری ہے جو کہ2019ء تک قابل عمل رہے گی،کمیٹی نے ہدایت کی کہ کمیٹی کا آئندہ اجلاس ٹیکسٹائل سٹی میں منعقد کیا جائے گا جبکہ اس دوران کمیٹی عملی طور پر ٹیکسٹائل سٹی کا دورہ بھی کرے گی۔