افغانستان: نسبتاً پرامن ماحول میں صدارتی انتخاب،تشدد کے اکا دکا واقعات کے علاوہ مجموعی طور پر پولنگ کا عمل پرامن ماحول میں جاری رہا،ایک بم دھماکے میں دو پولیس اہلکار ہلاک اور چار زخمی ہوئے،پولنگ کا عمل مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے سات بجے شروع ہوا ، نو گھنٹوں تک جاری رہا۔ لوگوں کی بڑی تعداد میں پولنگ اسٹیشنز پر موجودگی کے باعث ایک گھنٹے کی توسیع کر دی گئی، انتخابات کے لیے ملک بھر میں 28 ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے،منصب صدارت کے لیے آٹھ اْمیدوار وں میں مقابلہ، اشرف غنی، عبداللہ عبداللہ اور زلمے رسول کے درمیان سخت مقابلے کا امکان، لوگ انتخابات سے خاصی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں سکیورٹی خدشات کے باوجود لوگوں کی بڑی تعداد نے ووٹ ڈالے ۔ مبصرین

اتوار 6 اپریل 2014 04:20

کابل(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔6اپریل۔2014ء ) افغانستان میں نئے صدر کے انتخابات کے لیے ہفتہ کو ووٹ ڈالے گئے۔ طالبان کی طرف سے انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے اور انتخابات کا حصہ بننے والوں کو نشانہ بنانے کی دھمکیوں کے باوجود لوگوں کی ایک قابل ذکر تعداد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔تشدد کے اکا دکا واقعات کے علاوہ مجموعی طور پر پولنگ کا عمل پرامن ماحول میں جاری رہا۔

ایک بم دھماکے میں دو پولیس اہلکار ہلاک اور چار زخمی ہوئے۔امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق ملک بھر میں پولنگ کا عمل مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے سات بجے شروع ہوا جو کہ نو گھنٹوں تک جاری رہا۔ بعد ازاں لوگوں کی بڑی تعداد میں پولنگ اسٹیشنز پر موجودگی کے باعث اس میں ایک گھنٹے کی توسیع کر دی گئی۔

(جاری ہے)

افغانستان میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد ہے جب کہ انتخابات کے لیے ملک بھر میں 28 ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے تھے۔

۔صدر حامد کرزئی 2001 میں طالبان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے اقتدار میں ہیں۔ لیکن ملک کے آئین کے مطابق وہ مسلسل تیسری مرتبہ صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کے اہل نہیں۔اس لیے پانچ اپریل کے انتخابات کو ملک میں پر امن انتقال اقتدار کے لیے انتہائی اہم تصور کیا جا رہا ہے۔ صدارتی انتخابات کے علاوہ ملک میں صوبائی کونسل کے بھی انتخابات ہو رہے ہیں۔

منصب صدارت کے لیے آٹھ اْمیدوار میدان ہیں تاہم اشرف غنی، عبداللہ عبداللہ اور زلمے رسول کے درمیان سخت مقابلے کی توقع ہے۔ مبصرین نے ان انتخابات کو جمہوری عمل کے لیے خوش آئند قرار دیا ہے۔ تجزیہ کار زیور خان نے امریکی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ لوگ انتخابات سے خاصی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں اور سکیورٹی خدشات کے باوجود لوگوں کی بڑی تعداد نے ووٹ ڈالے۔

انتخابات کے پرامن انعقاد کے لیے ملک بھر میں ساڑھے تین لاکھ سکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے۔ خاص طور پر پولنگ اسٹیشنز کی گرد سکیورٹی کے کئی حصار بنائے گئے تھے تاکہ افغان عوام اپنے ووٹ کا حق استعمال کر سکیں۔جنوبی شہر قلات میں سڑک میں نصب ایک بم کے دھماکے کم ازکم دو پولیس اہلکار ہلاک اور دو زخمی ہوگئے۔ یہ افراد ایک پولنگ اسٹیشن سے واپس آرہے تھے۔

جنوب مشرقی صوبہ لوگر میں ایک پولنگ سنٹر کے باہر دھماکے سے چار افراد زخمی ہو گئے، جب کہ بعض علاقوں میں راکٹ بھی داغے گئے لیکن اْن میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔طالبان کی طرف سے انتخابات میں رخنہ اندازی کے اعلانات اور اس میں شرکت کرنے والوں کو نشانہ بنائے جانے کی دھمکیوں کے باوجود اس کے مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے جنوبی صوبہ قندھار میں خواتین نے بھی اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔

گو کہ ان کی تعداد خاطر خواہ نہیں تھی۔ملک کے بعض حصوں کے پولنگ اسٹیشنز سے بیلٹ پیپر ختم ہونے کی اطلاعات کے ساتھ ساتھ یہ خبریں بھی موصول ہوئی ہیں کہ حکام نے جعلی ووٹ ڈالنے یا جعلی ووٹنگ کارڈز استعمال کرنے کی کوشش کرنے والے کم از کم چھ سرکاری اہلکاروں کو حراست میں لیا۔افغان الیکشن کمیشن کے مطابق پہلے مرحلے میں اگر کوئی صدارتی امیدوار 50 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں ناکام ہوا، تو ایسی صورت میں دوسرے مرحلے میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والے دو اْمیدواروں میں مقابلہ ہو گا۔