وزیرستان: طالبان طالبان سے لڑ پڑے، 20 ہلاک، دو مرکزی دھڑوں کے مابین جاری جھڑپوں نے شدت اختیار کرلی ،لڑائی کا دائر اب رفتہ رفتہ دیگر علاقوں تک پھیلنے لگا، ہلاکتوں کی تعداد چالیس کے لگ بھگ ہے ،مقامی میڈیا

جمعہ 11 اپریل 2014 06:17

اسلام آباد،وانا ( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔11اپریل۔2014ء )قبائلی جنوبی وزیرستان میں کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے دو مرکزی دھڑوں کے مابین جاری جھڑپوں نے شدت اختیار کرلی ہے اور لڑائی کا دائر اب رفتہ رفتہ دیگر علاقوں تک پھیلتا جارہا ہے۔سرکاری اور مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو دنوں میں حکیم اللہ محسود اور ولی الرحمان گروپوں نے شوال اور ٹانک کے علاقوں میں ایک دوسرے کے ٹھکانوں پر بھاری اور خود کار ہتھیاروں سے حملے کئے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ تازہ جھڑپوں میں کم سے کم دس کے قریب افراد مارے گئے جس میں تین عام شہری بھی شامل ہیں۔ان کے مطابق گزشتہ روز ٹانک میں ایک ہوٹل پر حملہ کیا گیا جس میں ہلاکتیں بھی ہوئی جبکہ اس سے قبل شوال میں بھی مسلح گروہوں نے ایک دوسرے کے مراکز پر حملے کئے۔

(جاری ہے)

چند روز قبل بھی دونوں گروپوں کے جنگجووٴں نے شکتوئی اور مکین کے علاقوں میں بھی ایک دوسرے کو نشانہ بنایا۔

قبائلی ذرائع کے مطابق پہلے یہ لڑائی صرف جنوبی وزیرستان تک محدود رہی لیکن اب اس کا دائرہ رفتہ رفتہ دیگر علاقوں تک پھیلتا جا رہا ہے۔سرکاری اہلکاروں کے مطابق اب تک اس لڑائی میں دونوں جانب سے 20 سے زائد جنگجو مارے گئے ہیں۔تاہم مقامی ذرائع نے ہلاکتوں کی تعداد چالیس کے لگ بھگ بتائی ہے۔مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ حکیم اللہ محسود گروپ کی سربراہی شہریار محسود اور ولی الرحمان گروپ کی خان سید سجنا کر رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ دونوں دھڑوں کے مابین ایک دوسرے کے علاقوں میں مداخلت کرنے پر بہت پہلے سے اختلافات چلے آ رہے ہیں۔ تاہم حکیم اللہ محسود اور ولی الرحمان کی زندگی میں یہ اختلافات اتنے زیادہ گہرے نہیں تھے۔گزشتہ سال دونوں طالبان کمانڈروں کی امریکی ڈرون حملوں میں ہلاکت سے یہ اختلافات کھل کر سامنے آگئے۔ بی بی سی کے مطابق بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں گروپوں نے کراچی میں بھی ایک دوسرے کے مکانات پر حملے کئے ہیں جس میں ہلاکتیں بھی ہوچکی ہیں۔

تاہم ابھی تک تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے ان جھڑپوں کے حوالے سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔یہ بھی اطلاعات ہیں کہ دونوں دھڑوں کے مابین لڑائی روکنے کیلیے حقانی نیٹ ورک اور بعض دیگر طالبان تنظیموں کی طرف سے کوشش بھی کی گئی ہے لیکن ابھی تک ان کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے،

متعلقہ عنوان :