خیبرایجنسی،وادی تیراہ میں حیدرکونڈوں میلے سے طالبان نے منگل باغ گروپ کے 100سے زائد افراد اغواء کر لئے، 20افراد تاوان کی ادائیگی پر رہا ،جنوبی وزیرستان میں طالبان کی طالبان سے ’جنگ بندی‘ کی سعی،مذاکراتی عمل میں اہم پیشرفت ہونے کا امکان ہے‘ مولانا یوسف ،طالبان کے ناراض گروپوں میں تنازعات ختم‘ صلح ہوگئی ہے‘ اعظم طارق، امید ہے کہ مذاکرات میں تعطل آئندہ چند دنوں میں ختم ہوجائے گا،پروفیسر محمد ابراہیم

اتوار 13 اپریل 2014 05:19

خیبرایجنسی(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔13اپریل۔2014ء)وادی تیراہ میں حیدرکونڈوں میلے سے طالبان نے100سے زائد قبائلیوں کو اغواء کرلیا۔نمائندہ اُردو پوائنٹ کے مطابق وادی تیراہ سے100سے زائد قبائلیوں کو مبینہ طور پر اغواء کرلیا گیا ہے اور انہیں کالعدم تحریک طالبان نے اغواء کیا اور نامعلوم مقام پر لے گئے ہیں، لشکر اسلام منگل باغ گروپ کے ترجمان محبوب کے مطابق تمام اغواء ہونے والے افراد کا تعلق ان کی تنظیم سے ہے ۔

طالبان ذرائع کے مطابق ان افراد کو کمانڈر فاضل نے اغواء کیا ہے۔ پولیٹیکل انتظامیہ نے 20افراد کی رہائی کی تصدیق کی ہے جبکہ ابھی بھی 80سے زائد افراد طالبان کی تحویل میں ہیں۔جنوبی وزیرستان میں کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے دواہم گروپوں کے مابین گزشتہ چند روز سے جاری پرتشدد جھڑپیں روکنے کے لیے طالبان کمانڈروں نے اپنی کوششیں تیز کردی ہے۔

(جاری ہے)

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کا ذرائع کے حوالے سے کہنا ہے کہ فریقین کے مابین جنگ بندی کرا دی گئی ہے تاہم مقامی طور پر اس کی تصدیق نہیں ہوسکی۔جنوبی وزیرستان سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق ہفتہ کو تحریک طالبان کے سینئیر کمانڈروں نے خان سید سجنا اور شہریار گروپوں سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ جمعیت علماء اسلام (ف) سے تعلق رکھنے والے بعض سابق اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹ نے بھی فریقین کے مابین جنگ بندی کرانے کے لیے کوششں تیزی کردی ہے۔

تحریک طالبان پاکستان کے ایک اہم کمانڈر اعظم طارق نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ فریقین کے درمیان جنگ بندی کرا دی گئی ہے۔ اعظم طارق نے کہا کہ بعض غلط فہمیوں کے باعث طالبان دھڑوں میں اختلافات پیدا ہوئے اور نوبت لڑائی تک جا پہنچی جس میں دونوں جانب سے ہلاکتیں بھی ہوئی۔ تاہم فریقین کے درمیان اب صلح کرادی گئی ہے۔

انھوں نے ہلاکتوں کے حوالے سے رپورٹوں کو مسترد رکرتے ہوئے کہا کہ لڑائی میں دونوں طرف سے جانی نقصان ضرور ہوا لیکن اتنا نہیں جتنا میڈیا میں بتایا جا رہا ہے۔ تاہم دیگر ذرائع سے جنگ بندی کے حوالے سے مصدقہ اطلاعات نہیں ملی ہے۔ادھر اطلاعات ہیں کہ جنوبی وزیرستان میں آج صبح سے خاموشی ہے اور شام ہونے تک وہاں کسی علاقے سے کسی جھڑپ کی اطلاع نہیں ملی ہے۔

مقامی ذرائع کا کہنا کہ گزشتہ چند دنوں کے دوران دونوں گروہوں کے مابین جھڑپوں میں چالیس کے قریب افراد مارے گئے ہیں۔ پہلے یہ لڑائی صرف جنوبی وزیرستان تک محدود تھی لیکن اب اس کا دائرہ دیگر علاقوں تک بھی پھیل چکا ہے۔ذرائع کے مطابق دونوں دھڑوں کے مابین ایک دوسرے کے علاقوں میں مداخلت کرنے پر بہت پہلے سے اختلافات چلے آ رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کے درمیان کراچی میں بھی لڑائی ہوچکی ہے۔

تاہم ابھی تک تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے ان جھڑپوں کے حوالے سے کوئی باضابط طورپر ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔خیال رہے کہ جمعہ کو جنوبی اور شمالی وزیرستان کے سرحدی علاقے شوال میں فریقین نے ایک دوسرے کی گاڑیوں پر راکٹ اور بم حملے کیے تھے جس میں کم سے کم پندرہ کے قریب جنگجو مارے گئے تھے۔طالبان رابطہ کار کمیٹی کے رکن مولانا یوسف شاہ نے کہا ہے کہ طالبان کے درمیان دو گروپوں کے مسلح تصادم کا اثر مذاکرات پر نہیں ہوگا۔

تفصیلات کے مطابق ہفتہ کو طالبان رابطہ کار کمیٹی کے رکن مولانا یوسف شاہ نے تحریک طالبان سیاسی شوریٰ کے رکن اور جنوبی وزیرستان کے ترجمان اعظم طارق سے رابطہ کیا جس میں اعظم طارق نے بتایا کہ چند روز قبل جو طالبان گروپوں کی آپس میں لڑائی ہوئی تھی جسے میڈیا نے بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا اس لڑائی میں ہلاکتوں کے بعد طالبان شوریٰ سمیت مختلف طالبان گروپوں نے مداخلت کی اور تمام تنازعات کو ختم کردیا۔

انہوں نے کہا کہ طالبان کی لڑائی کے بعد مذاکرات کی ناکامی کی خبریں بھی گردش کررہی ہیں۔ یہ تاثر غلط ہے اور اس میں مذاکرات کا کوئی تعلق نہیں ہے جبکہ یوسف شاہ نے بھی نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کی سیاسی شوریٰ سے رابطہ کار کمیٹی کا رابطہ ہوا ہے اور آئندہ چند روزہ میں طالبان کی سیاسی شوریٰ سے میٹنگ متوقع ہے۔جماعت اسلامی کے صوبائی امیر اور تحریک طالبان رابطہ کار کمیٹی کے رکن پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا ہے کہ امید ہے کہ مذاکرات میں تعطل آئندہ چند دنوں میں ختم ہوجائے گا۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ مذاکرات کے اگلے مرحلے کے لئے کمیٹیوں کی طالبان شوریٰ سے ملاقات کے لئے بات چیت ہورہی ہے۔ دونوں اطراف کچھ مشکلات اور رابطوں کی کمی کی وجہ سے ابھی تک جگہ کا تعین نہیں ہوسکا ہے۔اس وقت بہت زیادہ پیش رفت نہیں ہورہی۔ ایک طرح سے ایک تعطل کی کیفیت ہوئی ہے۔ امید ہے آئندہ آنے والے چند دنوں میں تعطل ختم ہوگا اور مذاکرات کا عمل آگے بڑھے گا۔

پروفیسر ابراہیم کا کہنا تھا کہ کوشش کی جارہی ہے کہ عارضی فائر بندی کو مستقل امن میں تبدیل کردیا جائے اور اگر اس میں کوئی رکاوٹیں ہوں تو دوسرا آپشن بھی ہمارا یہ ہوگا کہ ہم اس میں توسیع کرانے کے لئے دونوں طرفین کو آمادہ کریں۔ انہوں نے کہاکہ دوسری جانب طالبان کو بھی مسائل کا سامنا ہے ۔ جس کی وجہ سے اس کے درمیان جاری داخلی لڑائی ہے ۔ جس کو ختم کرنے کی کو شش کی جا رہی ہے طالبان شوری کے ساتھ ر ابطوں میں رکاوٹیں ہیں ۔ اور رکاوٹوں کی وجہ سے فائر بندی کی مد ت میں مزید توسیع نہیں ہو ئی ہے انہوں نے کہاکہ امید ہے کہ عملی طور پر فائر بندی رہے گی اور معاہدے پر عمل کیا جائے گا ۔