طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے کوئی ڈیڈ لاک نہیں، چو ہدری نثار، سو فیصد یقین کے ساتھ کہتا ہوں تمام معاملات پر حکومت اور فوج ایک ساتھ ہیں، رواں ہفتے سے عملاً مذاکرات کا اگلا دور شروع ہوگا،اب تک 19غیر عسکری قیدی رہا کردیئے اور 13قریب قیدی آئندہ چند روز میں گرفتار کر لئے جائیں گے،طالبان سے شہباز تاثیر ،علی گیلانی اور پروفیسر اجمل سمیت دیگر قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے، حکومت کا اصل ایجنڈاپاکستان کا آئین ، قانون اور ملک میں امن و امان کا قیام ہے،حکومت اور فوج کے درمیان غلط فہمیاں ضرور پیدا ہوئیں مگر مسئلہ اتنا گھمبیر نہیں جتنا تالی بجانے والوں نے اسے میڈیا پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے،سبزی منڈی بم دھماکے کے حوالے سے اہم پیش رفت سامنے آئی ہے جلد اصل محرکات تک پہنچ جائیں گے، آئندے ہفتے سے مستقل آئی جی اسلام آباد اور ایس ایس پی آپریشنز کی تعیناتی عمل میں لائی جائے گی، پریس کانفرنس سے خطاب

پیر 14 اپریل 2014 06:44

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔14اپریل۔2014ء)وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے کوئی ڈیڈ لاک نہیں، اس ہفتے سے عملاً مذاکرات کا اگلا دور شروع ہوگا،اب تک 19غیر عسکری قیدی رہا کردیئے اور 13قریب قیدی آئندہ چند روز میں گرفتار کر لئے جائیں گے،طالبان سے شہباز تاثیر ،علی گیلانی اور پروفیسر اجمل سمیت دیگر قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

گزشتہ 10ماہ کے درمیان پاک فوج اور حکومت کے درمیان جس قدر سازگار اور مثبت آہنگی نظر آئی اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی، حکومت،پاک فوج اور محب وطن سیاسی قیادت ملکی مسائل پر ایک ہے۔حکومت کا اصل ایجنڈاپاکستان کا آئین ، قانون اور ملک میں امن و امان کا قیام ہے جس کے لئے عسکری و سیاسی قیادت کے ساتھ ساتھ،عدلیہ ، میڈیا اور پوری قوم کے تعاون کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ قومی سلامتی کے معاملے پر مکمل طورپر اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ کیا جائے۔ حکومت اور فوج کے درمیان غلط فہمیاں ضرور پیدا ہوئیں مگر مسئلہ اتنا گھمبیر نہیں جتنا تالی بجانے والوں نے اسے میڈیا پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔سبزی منڈی بم دھماکے کے حوالے سے گزشتہ 72گھنٹوں کے دوران اہم پیش رفت سامنے آئی ہے جلد اصل محرکات تک پہنچ جائیں گے، آئندے ہفتے سے مستقل آئی جی اسلام آباد اور ایس ایس پی آپریشنز کی تعیناتی عمل میں لائی جائے گی۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کے روز پنجاب ہاوٴس میں ایک اہم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران اسلام آباد پولیس کی جانب سے سبزی منڈی بم دھماکے کے حوالے سے کی گئی تفتیش اطمینان بخش ہے اور پچھلے 72 گھنٹوں میں اہم پیشرفت ہوئی ہے اور وفاقی پولیس جس بس کے ذریعے فروٹ سبزی منڈی میں لایا گیا تھا اس بس کے ڈرائیور اور مزدوروں کو بھی حراست میں لے کر تفتیش شروع کر رکھی ہے یہ فروٹ جنوبی پنجاب کے ایک مخصوص علاقے کے ذریعے سبزی منڈی لایا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے سے متعلق انٹیلی جنس کی رپورٹس پہلے سے اور بعد میں بھی موجود تھیں اور ابتدائی طور پر جس گروپ نے ذمہ داری قبول کی تھی وہ غلط تھی جس کی ہم نے فوری طو رپر ابتدائی مرحلے میں ہی تردید کی کیونکہ اس واقعہ کے تانے بانے کسی اور طرف جاتے ہیں آئندہ چند روز میں تفتیش کے عمل کو آگے بڑھا کر اصل محرکات تک پہنچ جائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بدقسمتی سے یہ واقعہ اسلام آباد کے مضافات میں پیش آیا سبزی منڈی کا علاقہ چار سو کنال پر محیط ہے جس کی کوئی باؤنڈری لائن یا گیٹ وغیرہ نہیں ہیں اور اس کے ساتھ ایک افغان کچی آبادی منسلک ہے جہاں سینکڑوں نہیں ہزاروں افراد مقیم ہیں جن میں غیر ملکی بھی ہیں اور دو لاکھ کے قریب اس بستی کی آبادی ہے مگر جب بھی اس بستی کو کسی اور جگہ منتقل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو کئی سیاسی رہنماء میڈیا کو لے کر وہاں پہنچ جاتے ہیں تو یہ کس کی غلطی ہے اور یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ گزشتہ حکومتوں نے وفاقی دارالحکومت میں کچی آبادیاں کیوں قائم ہونے دیں۔

موجودہ حکومت کے آٹھ دس ماہ کے دوران کوئی نئی کچی آبادی اسلام آباد میں قائم نہیں ہوئی سبزی منڈی میں روزانہ 250 سے زائد گاڑیاں آتی ہیں ان سب کو روک کر معمولات زندگی کو معطل نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے سابقہ دور حکومت میں اسلام آباد سیف سٹی پروجیکٹ کے تحت منگوائے گئے سکینرز کے حوالے سے بتایا کہ ایک ارب کی مالیت سے دو سکینر منگوائے گئے تھے جو دونوں کے دونوں ناکارہ ہیں اور پیپلزپارٹی کے کوئی بھی دو رہنماء میڈیا کے ہمراہ جاکر اس کی تحقیق کر سکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس منصوبے پر ابھی تک بیالیس کروڑ سے زائد کا خرچہ آچکا ہے اور جس کمپنی کے ساتھ معاہدہ ہوا تھا اس کی طرف سے سود آنا بھی شروع ہوچکا ہے۔ مگر غلطی ہماری نہیں غلطی پچھلی حکومتوں کی ہے کیونکہ چھ سال تک اس منصوبے پر عملدرآمد بھی نہیں کیا گیا۔ تاہم یقین دلاتا ہوں کہ وفاقی دارالحکومت کو جدید ٹیکنالوجی اور بہترین سکیورٹی کے ساتھ ماڈرن سٹی بنائیں گے اور سکیورٹی فورسز کی استعاد کار میں بہتر لاکر پورے ملک میں امن قائم کیا جائے گا۔

دہشت گردی کی وجہ سے شاپنگ سینٹر اور معمولات زندگی کو بند نہیں کر سکتے دنیا کے بڑے بڑے شہروں میں واقعات ہوتے ہیں پچھلے دنوں واشنگٹن میں واقعہ ہوا اس کے علاوہ روس ‘ برطانیہ‘ جرمنی اور دنیا کے کئی بڑے شہروں میں ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں مگر کسی نے ان علاقوں کو سکیورٹی رسک نہیں قرار دیا بلکہ ان اقوام نے اتحاد کا مظاہرہ کیا۔ مگر یہاں ایسا کوئی واقعہ پیش آجائے تو پوائنٹ سکورنگ کی جاتی ہے اور میڈیا کو استعمال کرنے میں وہ لوگ آگے آگے ہوتے ہیں جو گزشتہ بارہ تیرہ برسوں سے اقتدارمیں رہے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے ان لوگوں نے اپنے دور حکومت میں پاکستان کیلئے کیا کیا ہے۔ مذاکرات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے کوئی ڈیڈ لاک نہیں حکومتی و طالبان کمیٹیوں کے ساتھ گزشتہ اجلاس میں ہی یہ بات طے کردی گئی تھی کہ طالبان شوریٰ کے ساتھ مذاکرات اسی ہفتے کے پیر یا منگل کو ہوں گے یا اس اتوار کے بعد رواں ہفتے میں ہوں گے اور قوم کو یقین دلاتا ہوں کہ مذاکرات میں قطعی طورپر کوئی ڈیڈ لاک نہیں آیا۔

انہوں نے واضح کیا کہ افواج پاکستان اور حکومت مذاکرات کے حوالے سے ایک پیج پر ہیں اور اس حوالے سے دونوں کے درمیان کوئی اختلافات نہیں ہیں پالیسی ڈفرنس بالکل بھی نہیں ہے اور متفقہ طو رپر ان معاملات کو مثبت انداز میں آگے بڑھایا جارہا ہے۔ جبکہ غیر عسکری قیدیوں کی رہائی بھی فوج کے ساتھ مکمل مشاورت کے ساتھ عمل میں لائی گئی کیونکہ طالبان کے غیر عسکری قیدی زیادہ تر انٹرنل سینٹرز میں قید ہیں اور یہ سینٹرز پولیس کے نہیں بلکہ فوج کے کنٹرول میں ہیں۔

ابتدا میں انیس قیدیوں کی رہائی کے بعد مزید تیرہ غیر عسکری قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے بھی فوج کے ساتھ مکمل مشاورت کی گئی ہے اور ان قیدیوں کو ابھی رہا نہیں کیا گیا اس کے ساتھ ساتھ حکومت نے طالبان کی قید میں موجود اپنے غیر عسکری قیدیوں اور غیر ملکیوں کا معاملہ بھی نہ صرف اٹھایا ہے بلکہ نام لے کر ان کو بتایا ہے کہ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی موسیٰ گیلانی‘ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے صاحبزاد شہباز تاثیر اور پروفیسر اجمل سمیت ان ان قیدیوں کو رہا کیا جائے۔

اور اس میں ضرور پیش رفت ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ میری تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل ہے کہ وہ ایسے معاملات پر پوائنٹ سکورنگ کی بجائے اتحاد کا مظاہرہ کریں حکومت پاکستان کا ایجنڈا‘ پاکستان کے آئین و قانون کی عملداری اور امن و امان کا قیام ہے جس کیلئے پوری قوم کو یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ طالبان کے اندر بھی مختلف گروپس ہیں اور اس کے علاوہ ایسی کئی طاقتیں موجود ہیں جو مذاکرات کے عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں اور یہ مذاکرات کا عمل اتنا آسان نہیں کہ روزمیڈیا پر بیٹھ کر اس کے بارے میں بات کی جائے یا پوائنٹ سکورنگ کی جائے۔

ان کا کہنا تھاکہ گزشتہ بارہ تیرہ برس میں سبزی منڈی بم دھماکے کے بعد پہلا موقع تھا جب طالبان نے نہ صرف اس دھماکے کی مذمت کی بلکہ اسے غیر اسلامی ‘ غیر اخلاقی اور حرام قرار دے دیا۔ جو حکومت کی کامیابی ہے کہ معاملات اس حد تک آگے بڑھ چکے ہیں اگر ملٹری آپریشن سے مسئلہ ہونا ہوتا تو آج تک ہوچکا ہوتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ چند دنوں یا چند ہفتوں میں مذاکرات کے حوالے سے اہم پیش رفت سامنے آجائے گی جبکہ انٹرنل سکیورٹی کے معاملے پر ابھی تک اہم پیش رفت ہوئی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے نہ صرف چھ سال سے تعطل کے شکار سیف سٹی پروجیکٹ کو دوبارہ شروع کیا ہے بلکہ اس پروجیکٹ کے تحت کیمروں کی تعداد پندرہ سو سے بڑھا کر چوبیس سو کردی گئی ہے جو اسلام آباد کے ساتھ ساتھ راولپنڈی کی مری روڈ کو بھی کور کریں گے جبکہ جس کمپنی کے ساتھ معاہدہ ہوا ہے اس کو اس بات پر آمادہ کیا ہے کہ وہ ہمیں جدید ترین اور لیٹسٹ ٹیکنالوجی فراہم کرے گی۔

حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ قومی سلامتی کے معاملے پر مکمل طورپر اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ کیا جائے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ حالیہ دہشت گردی واقعات میں بیرونی طاقتوں کے حوالے سے کئی سوال اٹھ رہے ہیں مگر میں بطور انٹیلی جنس ہر معاملہ سے مکمل آگاہ ہوں کہ ان دہشت گردی واقعات میں کون سی طاقتیں ملوث ہیں انہیں فنڈنگ کہاں سے ہورہی ہے اور ان کے اصل ٹارگٹ کیا ہے مگر اس سے پہلے ہمیں خود کو اتنا مضبوط کرنا ہوگا کہ غیر ملکی طاقتیں خود بخود ختم ہوجائیں۔

کچی آبادیوں کو دوسری جگہ منتقل کرنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ افغان مہاجرین کو اپنے کیمپوں میں ہونا چاہیے اور جو لوگ دوسرے صوبوں سے آئے ہیں انہیں بھی اپنے علاقوں میں ہونا چاہیے دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ جس طرح ہمارے دارالحکومت میں ہورہاہے اور جب بھی کچی آبادیوں کو کہیں منتقل کرنے کی بات کی جاتی ہے تو نئی ڈرامے بازی شروع کردی جاتی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ انٹرنل سکیورٹی کے معاملے پر پاک فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں اور بہت سارے مسائل ایسے ہیں جنہیں حکومت اور پاک فوج ایک ساتھ لے کر جارہی ہے گزشتہ دس ماہ کے دوران سول ملٹری تعلقات کو جس قدر قریبی ‘ دوستانہ ‘ ایماندر اور پاکستان دوست دیکھا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ سو فیصد یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ تمام معاملات پر حکومت اور فوج ایک ساتھ ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہماری سب سے بڑی مخالف جماعت تحریک انصاف قومی ایشوز پر ہمارے ساتھ کھڑی ہے مگر بعض دیگر جماعتوں نے مایوس کیا ہے میری اپیل ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں حب الوطنی کا مظاہرہ کریں کیونکہ تھریٹ لیول اور تھریٹ پرسیپشن میں فرق ہوتا ہے اور کسی کو یہ پیغام نہ دیا جائے کہ ہمارا فلاں شہر غیر محفوظ ہے۔ محض پوائنٹ سکورنگ کیلئے ایسی باتیں بنائی گئیں جن میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہماری خواہش ہے کہ مذاکرات سیٹل ایریا میں ہوں اور یہ علاقہ پشاور یا اس کے علاوہ دو تین مقامات ایسے ہیں جہاں مذاکرات ہوسکتے ہیں۔