لاہور ہائیکورٹ کے ججوں کی سنیارٹی کے معاملہ پر دائر درخواست سماعت کیلئے منظور ،سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر دیئے،بطور ایڈیشنل جج تقرری اچھی روایت ہے مگر جج اسی روز شمار ہو گا جب اس کی مستقل تقرری ہو گی ،جسٹس آصف سعید کھوسہ

بدھ 16 اپریل 2014 06:44

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔19اپریل۔2014ء)سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کے ججوں کی سنیارٹی کے معاملہ پر دائر درخواست سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر دیئے ہیں اور مقدمہ دوبارہ مئی کے پہلے ہفتے میں سماعت کیلئے لگانے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ بطور ایڈیشنل جج تقرری ایک اچھی روایت ہے مگر ایڈیشنل جج باقاعدہ جج شمار نہیں ہوتا ،جج اسی روز شمار ہو گا جب اس کی مستقل تقرری ہو گی ۔

چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی ،جسٹس ناصر الملک،جسٹس انور ظہیر جمالی،جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس اعجاز افضل خان پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی تو درخواست گذاراسلم اعوان ایڈووکیٹ خود پیش ہوئے اور دلائل دیتے ہوئے کہاکہ انہیں لاہور ہائیکورٹ کے موجودہ 18ججوں کی سنیارٹی پر اعتراض ہے14ستمبر 2009 کے نوٹیفکیشن کے ذریعے صدر نے آئین کے آرٹیکل 197کو ہائیکورٹ میں 12ایڈیشنل جج تعینات کئے جن میں سے اس وقت پانچ جج موجود ہیں باقی یا تو ریٹائر ہوگئے یا ان کی مدت میں اضافہ نہیں کیا گیا اور جو جج موجود ہیں ان میں خواجہ امتیاز احمد اس وقت سینئر ترین جج ہیں ۔

(جاری ہے)

اس کے بعد 17فروری 2010ء کو 22ایڈیشنل جج تعینات کئے گئے۔اس کے بعد 18ویں ترمیم آگئی جس کیخلاف مقدمہ میں سپریم کورٹ نے 30اگست 2010ء کو ایک عبوری حکم نامہ جاری کیا جس کے تحت جن ایڈیشنل ججوں کی مدت ختم ہو رہی تھی ان میں آئندہ حکم تک اضافہ کردیا گیا ،اس حکم کے تحت 34میں سے 18ججوں کی مدت میں توسیع ہوئی اور یہ کیس ابھی بھی سپریم کورٹ میں زیر التواء ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ حکم نامہ اس لئے جاری کرنا پڑا کیونکہ اس وقت ججوں کی تعیناتی کا کوئی نظام موجود نہیں تھا جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کے خلاف درخواستیں زیرالتواء تھیں اور پرانا نظام ختم ہو چکا تھا اور اس کیلئے چاروں ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان نے چیف جسٹس آف پاکستان کو باقاعدہ نوٹ لکھا تھا ۔اسلم اعوان نے بتایا کہ ان ججوں کا تقرر آئین کے آرٹیکل 197کے تحت ہوا تھا اسی کے تحت نوٹیفکیشن بھی جاری ہوا مگراسی روز نوٹیفکیشن میں تبدیلی کر دی گئی اور تقرری آرٹیکل 193کے تحت قرار دے دی گئی مگر پہلا نوٹیفکیشن واپس نہیں لیا گیا اور تبدیل شدہ نوٹیفکیشن میں کہہ دیا گیا کہ ان ججوں کی ایڈیشنل تقرری کی تاریخیں بے شک مختلف ہوں مگر سنیارٹی آرٹیکل 193 کے تحت جاری کردہ نوٹیفکیشن کی تاریخ سے شمار ہو گی ۔

اسلم اعوان کے مطابق اس طرح مختلف تاریخوں پر تعینات ہونے والے ججو ں کی سنیارٹی اکٹھی کردی گئی۔چیف جسٹس نے کہاکہ ان ججوں میں تو خواجہ امتیاز کا نام ہی نہیں اور وہ اس وقت سینئر ترین جج ہیں۔وکیل نے کہاکہ عدالت کے سامنے سوال یہ ہے کہ سنیارٹی آرٹیکل 193کے تحت ایڈیشنل تقرری کی تاریخ سے شمار ہو گی یا 197کے تحت مستقل تقرری کی تاریخ سے؟ ۔ میرا پہلا پوائنٹ یہ ہے کہ سنیارٹی مستقل تقرری کی تاریخ سے شمار ہونی چاہیے ،دوسرا پوائنٹ یہ ہے کہ سنیارٹی تاریخ پیدائش سے شمار کی جانی چاہیے اور تیسرا پوائنٹ یہ ہے کہ سینارٹی طے کرنے کیلئے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے قائم کردہ کمیٹی کی ہیئت درست نہیں ہے۔

اگر سینارٹی مستقل تقرری کی تاریخ سے شمار کی جائے توموجودہ ججوں میں سے خواجہ امتیاز نہیں بلکہ خالد احمد خان سنیئر ترین جج ہیں ۔اس موقع پر جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہاکہ کیا اس طرح آپ انتظامیہ کو عدلیہ پر حاوی ہونے کا موقع فراہم نہیں کررہے؟ ،وہ تو جب دل چاہے گا کسی جج کے نوٹیفکیشن میں تاخیر کردے گی جبکہ چیف جسٹس نے کہاکہ یہ عدلیہ کو انتظامیہ سے الگ کرنے کے آئینی اصول کے منافی نہیں ہو گا ۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ اگر آپ کی بات مان لی جائے تو نیا آنے والا جج پرانے کا سینئر بن جائے گا۔ اس پر فاضل وکیل نے کہاکہ یہ نکتہ تو آپ نے ججز پنشن کیس کے اضافی نوٹ میں طے کردیا تھا اور میری اس بات کی آپ نے اس نوٹ میں حمایت کی ہے جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ وہ الگ مقدمہ تھا اور اس میں موجودہ ایشو اٹھایا ہی نہیں گیا تھا ۔چیف جسٹس نے وکیل سے کہاکہ کیا آپ کا سوال یہ ہے کہ عدالت طے کرے کہ 193کے تحت تعیناتی تازہ ہے یا سابقہ تقرری کا تسلسل ہے ۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ بطور ایڈیشنل جج تقرری ایک اچھی روایت ہے اس لئے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اسے جاری رکھنے کا فیصلہ دیا تھا مگر ایڈیشنل جج باقاعدہ جج شمار نہیں ہوتا ،جج اسی روز شمار ہو گا جب اس کی مستقل تقرری ہو گی اس لئے سنیارٹی بھی مستقل تقرری کی تاریخ سے ہی طے ہونی چاہیے۔بعدازاں عدالت نے دلائل سننے کے بعد درخواست باقاعدہ سماعت کے لئے منظورکرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر دیا۔