سپریم کورٹ میں بلوچستان بدامنی کیس کی سماعت،وزارت دفاع سے بلوچستان میں لاپتہ افراد کی گمشدگی میں ملوث آرمی افسران کیخلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کی تمام تر تفصیلات طلب،خضدار میں اجتماعی قبروں سے ملنے والی لاشوں کی ڈی این اے رپورٹ 6 مئی تک حکومت پنجاب کی فرانزک لیبارٹری سے طلب،صوبے میں امن و امان کی بحالی ریاست کی آئینی و قانونی ذمہ داری ہے‘جسٹس ناصر الملک، آئے روز ہونے والے واقعات تشویشناک ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کرسکتے‘ لاپتہ افرادکیس میں ملوث عناصر کو بھی قانون کے مطابق سزا ملنی چاہئے،ریمارکس،جب تک ملک میں آئین و قانون کی عملداری نہیں ہوگی مسائل حل نہ ہوں گے، بلوچستان جل رہا ہے اور کسی کو پرواہ بھی نہیں،جسٹس انور ظہیر جمالی

بدھ 16 اپریل 2014 06:46

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔19اپریل۔2014ء) سپریم کورٹ نے بلوچستان بدامنی کیس میں وزارت دفاع سے بلوچستان میں لاپتہ افراد کی گمشدگی میں ملوث آرمی افسران کیخلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کی تمام تر تفصیلات طلب کرلی ہیں جبکہ خضدار میں اجتماعی قبروں سے ملنے والی لاشوں کی ڈی این اے ٹیسٹ رپورٹ 6 مئی تک حکومت پنجاب کی فرانزک لیبارٹری سے طلب کی ہے‘ دو رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس ناصرالملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ لاشوں کے ڈی این اے ٹیسٹ پر لمبا عرصہ کیوں لگایا جارہا ہے‘ صوبے میں امن و امان کی بحالی ریاست کی آئینی و قانونی ذمہ داری ہے‘ آئے روز ہونے والے واقعات تشویشناک ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کرسکتے‘ بلوچستان میں بدامنی نہیں دیکھ سکتے‘ لاپتہ افراد میں ملوث عناصر کو بھی قانون کے مطابق سزا ملنی چاہئے۔

(جاری ہے)

جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دئیے کہ اجتماعی قبروں سے لاشیں ملنا تشویشناک ہے۔ جب تک اس ملک میں آئین و قانون کی عملداری نہیں ہوگی مسائل حل نہیں ہوں گے۔ بلوچستان جل رہا ہے اور کسی کو پرواہ بھی نہیں۔ انہوں نے یہ ریمارکس منگل کے روزکیس کی سماعت کے دوران دئیے۔ دوران سماعت عدالت کو بتایا گیا کہ بلوچستان میں ایف سی کے ہاتھوں لاپتہ افراد کے مقدمات کے حوالے سے حکومت نے ایف سی اور آرمی افسران کیخلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات چلانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس حوالے سے کارروائی کی جارہی ہے اس پر عدالت نے کہا کہ اب تک کیا کارروائی کی گئی ہے؟ اس حوالے سے عدالت کو تفصیلات پیش کی جائیں۔

خضدار کی اجتماعی قبروں سے ملنے والی لاشوں بارے رپورٹ پیش کی گئی جس میں بتایا گیا ہے کہ ڈی این اے پر چار سے پانچ ماہ لگ سکتے ہیں کیونکہ ایک لاش کے ڈی این اے پر سات سے آٹھ ہفتے درکار ہیں اس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ اتنا عرصہ تو نہیں لگنا چاہئے‘ بتایا جائے کہ اتنا عرصہ کس لئے ضروری ہے۔ 6 مئی تک ڈی این اے ٹیسٹ رپورٹ دی جائے اور آرمی ایکٹ کے تحت جن افسران کیخلاف کارروائی کی جارہی ہے اس بارے بھی عدالت کو آگاہ کیا جائے۔

عدالت کو بتایا گیا کہ بلوچستان میں امن و امان کی بحالی اور لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے تمام تر اقدامات بروئے کار لائے جارہے ہیں۔ ڈاکٹروں کو بھی سکیورٹی فراہم کردی گئی ہے۔ دیگر عام لوگوں کی سکیورٹی کیلئے بھی فول پروف اقدامات کئے گئے ہیں۔ چیک پوسٹوں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں کمی آئی ہے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 6 مئی تک ملتوی کردی۔