وزیراعلیٰ کا دورہ ساہیوال: اجتماعی زیادتی کا شکار ہونے والی بچی کے گھر آمد، متاثرہ خاندان سے اظہار ہمدردی اور انصاف کی یقین دہانی، پولیس افسر اور اہلکار اپنی آنکھیں کھلی رکھیں تو معاشرے سے آدھے جرائم کا خاتمہ ہو جائے : شہباز شریف،وزیراعلیٰ کا ساہیوال کے نواحی گاؤں میں اجتماعی زیادتی کے واقعہ میں غفلت برتنے پر ڈی ایس پی اور ایس ایچ اوز کی معطلی کا حکم، درندے پاکستان کی ایک معصوم بیٹی کے ساتھ ظلم کی انتہا کردیں اور نظام اس کا تحفظ نہ کر سکے، ایسے نظام کو بدلنا ہوگا،معصوم بچی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا مقدمہ دہشت گردی کی عدالت میں چلایا جائے گا، مجرم قرار واقعی سزا سے بچ نہیں پائینگے،واقعہ میں ملوث تمام ملزمان آئندہ 48 گھنٹوں میں گرفتار کرنے کا حکم،وزیراعلیٰ شہباز شریف کی ساہیوال میں مظلوم خاندان اور میڈیا سے گفتگو

بدھ 16 اپریل 2014 06:30

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔19اپریل۔2014ء)وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ اگر پولیس افسر اور اہلکار اپنی آنکھیں کھلی رکھیں تو معاشرے سے آدھے جرائم کا خاتمہ ہو جائے۔ ساہیوال کے افسوسناک واقعہ میں پولیس بدترین غفلت کی مرتکب ہوئی ہے۔ فرائض سے کوتاہی برتنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ وزیراعلیٰ نے ڈی پی او کو ہدایت کی کہ واقعہ میں ملوث تمام ملزمان 48 گھنٹوں میں گرفتار کئے جائیں۔

وہ ساہیوال میں فتح شیر گاؤں (81/5R) میں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بننے والی لڑکی کے گھر مظلوم خاندان سے اظہار ہمدردی کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ وزیراعلیٰ محمد شہباز شریف نے کہا کہ افسوس کا مقام ہے کہ پولیس اس اندوہناک واقعہ کے ڈیڑھ ماہ بعد تک سوئی رہی اور ظالم درندے کھلے پھرتے رہے۔

(جاری ہے)

جو افسر اپنے علاقوں میں ہونے والے جرائم اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں سے بے خبر رہیں ان کیلئے پنجاب پولیس میں کوئی جگہ نہیں۔

وزیراعلیٰ نے اس موقع پر متعلقہ ڈی ایس پی اور ایس ایچ اوز کی معطلی کا حکم جاری کرتے ہوئے ان کے خلاف فرائض سے غفلت برتنے پر کارروائی کی ہدایت کی۔ وزیراعلیٰ نے موقع پر موجود انسپکٹر جنرل پولیس سے سوال کیا کہ یہ کیسا نظام ہے جو باپ کے سائے سے محروم بغیر کسی بھائی کے چار بہنوں کی معصوم بہن کو تحفظ نہیں دے سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اس سے تو تقسیم سے پہلے کا وہ نظام بہتر تھا جب پولیس افسر گھوڑوں پر سوار ہو کر دور دراز علاقوں کا دورہ کرتے تھے۔

آج آپ کے پاس تیز رفتار گاڑیاں ، جیپیں اور جدید اسلحہ موجود ہے مگر پولیس کو جرائم کی خبریں ٹیلی ویژن کے ذریعے پہنچتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پولیس بدترین غفلت کی مرتکب ہوئی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نظام خواب خرگوش کے مزے لے رہا ہے۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اس واقعہ میں آپ کے اپنے چینلز کہاں تھے جب درندوں نے مل کر پاکستان کی ایک بیٹی کے ساتھ ظلم کی انتہا کردی اور آپ کے افسر اور اہلکار سوئے رہے۔

ان کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ ان لوگوں نے افیم کھا رکھی تھی یا یہ کہ انہیں آنکھیں بند کرکے نوکری کرنے دی جائے۔ وزیراعلیٰ نے ہدایت کی کہ آئندہ48 گھنٹوں کے اندر اس واقعہ کے باقی ملزم بھی گرفتار کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ مقدمہ دہشت گردی کی عدالت میں چلایا جائے۔ عدالت سے درخواست کریں گے کہ مقدمہ کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کی جائے تاکہ مجرموں کو جلد کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے۔

وزیراعلیٰ نے ہدایت کی کہ متاثرہ خاندان کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے۔ انہوں نے متاثرہ لڑکی کو یقین دلایا کہ اس کی تعلیم کی پورا بندوبست کیا جائے گا اور ان کی دیگر ضروریات بھی پوری کی جائیں گی۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ اگر پولیس کو اس واقعہ کا ڈیڑھ مہینے میں پتہ نہ چل سکا تو یقین کر لینا چاہیئے کہ کہیں بدترین قسم کی غفلت ہوئی ہے۔ صوبے میں امن و امان کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ نے کہا کہ امن و امان کی صورتحال کو مزید بہتر بنانے کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جا رہے ہیں۔