ایمرجنسی آرڈر کا وزیراعظم ہاؤس میں کوئی ریکارڈ ہے نہ حکومت کو علم ہے کہ مشرف کا ساتھ دینے والے مشیر کون تھے ؟ ایمرجنسی کے حکم نامے پر صرف پرویز مشرف کے دستخط ہیں ، سرکاری افسران یا شخصیات کا مذکورہ فرمان میں ذکر ہے ان کیخلاف شوائد کی فراہمی کی زمہ داری پرویز مشرف پر عائد ہوتی ہے ، وہی اس حوالے سے ثبوت فراہم کرکے اپنے الزام کو درست ثابت کرسکتے ہیں،خصوصی عدالت میں اکرم شیخ کے دلائل،جن سے تفتیش کی گئی وہ فہرست فراہم نہیں کی جا سکتی ، فوراً میڈیا کے پاس چلی جائے گی، ملزم تحقیقاتی رپورٹ اپنے دفاع میں دیکھنا چاہتا ہے ، اسے محروم کیوں رکھا جائے ؟ جسٹس فیصل عرب کا پراسیکیوٹر سے استفسار ، کیا عدالت نے 1956 ء سے ٹرائل شروع کرنے کے لیے ان کی استدعا مسترد کی ہے، فروغ نسیم۔۔۔۔۔ایساکوئی حکم جاری نہیں کیا،عدالت،عدالت کا 24اپریل سے غداری کیس کی روزانہ سماعت کا اعلان

جمعرات 17 اپریل 2014 06:48

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔17اپریل۔2014ء)پرویز مشرف غداری کیس میں استغاثہ کے وکیل اکرم شیخ نے دلائل دیئے ہیں کہ ایمرجنسی آرڈر کا نہ وزیراعظم ہاؤس میں کوئی ریکارڈ ہے اور نہ ہی حکومت کو یہ علم ہے کہ ان کا ساتھ دینے والے مشیر کون تھے ؟ یہ تو خود پرویز مشرف ہی بتاسکتے ہیں،جن افراد سے تفتیش کی گئی وہ فہرست فراہم نہیں کی جا سکتی ، فاضل دوست کو فہرست دی تو وہ فوراً میڈیا کے پاس چلی جائے گی، جسٹس فیصل عرب نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ ملزم تحقیقاتی رپورٹ اپنے دفاع میں دیکھنا چاہتا ہے ، اسے محروم کیوں رکھا جائے ، کیا عدالت اورملزم کو تحقیقاتی رپورٹ فراہم کرنا ضروری نہیں۔

دوران سماعت مشرف کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے سوال کیا کہ کیا عدالت نے 1956 ء سے ٹرائل شروع کرنے کے لیے ان کی استدعا مسترد کی ہے، اگر ایسا ہے تو انہیں نقل دی جائے تاکہ تحریری وضاحت کر سکیں،کیس کی سماعت 24اپریل تک ملتوی کرتے ہوئے عدالت نے کہا ہے کہ اب اس کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہوگی۔

(جاری ہے)

خصوصی عدالت میں غداری کیس میں مشرف نے دیگر ساتھیوں کو ٹرائل میں شامل کرنے اور ایف آئی اے انکوائری رپورٹ کی نقل فراہم کرنے کی درخواست کی تھی، پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے بدھ کو تحریری جواب داخل کیا جس میں کہا گیا کہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق صرف پرویز مشرف کے خلاف دستاویزی ثبوت ملے ہیں، جبکہ تحریری رپورٹ کی نقل فراہم کرنا ضروری نہیں۔

اکرم شیخ نے کہا کہ عدالت ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ طلب کرسکتی ہے مگر قانون کے مطابق ملزم کو اس کا اختیار نہیں اور نہ ہی ملزم کو شہادتیں ریکارڈ ہونے سے قبل یہ کاپی فراہم کی جاسکتی ہے البتہ ملزم وہ بیان مانگ سکتے ہیں جو ان کیخلاف بطور شہادت تحقیقات شامل کیا گیا یا شکایت کے ساتھ عدالت میں پیش کیا گیا اس کے علاوہ جن افراد سے تفتیش کی گئی ہے ان کی فہرست بھی ملزم یا اس کے وکلاء کو فراہم نہیں کی جاسکتی ،اس کے بعد عدالت میں دلائل دیتے ہوئے پراسیکویٹر اکرم شیخ نے کہا کہ وزیراعظم کے دفتر میں ایمرجنسی کے نفاذ کے لیے کسی ایڈوائس یا سمری کا ریکارڈ موجود نہیں، ایمرجنسی آرڈر پر ملزم پرویز مشرف کے دستخط ہیں، جن سرکاری حکام کا ایمرجنسی آرڈر میں تذکرہ ہے ، ان کے ملوث ہونے کے شواہد مہیا کرنا ملزم کی ذمہ داری ہے۔

جسٹس فیصل عرب نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ ملزم تحقیقاتی رپورٹ اپنے دفاع میں دیکھنا چاہتا ہے ، اسے محروم کیوں رکھا جائے ، کیا عدالت اورملزم کو تحقیقاتی رپورٹ فراہم کرنا ضروری نہیں۔ اکرم شیخ کا جواب تھا کہ عدالت طلب کر سکتی ہے ، ملزم نہیں، ملزم وہ بیان مانگ سکتا ہے جو اس کے خلاف بطور شہادت پیش ہو، جن افراد سے تفتیش کی گئی وہ فہرست فراہم نہیں کی جا سکتی ، فاضل دوست کو فہرست دی تو وہ فوراً میڈیا کے پاس چلی جائے گی،انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ مشرف کی درخواستوں کو مسترد کردیں۔

دوران سماعت مشرف کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے سوال کیا کہ کیا عدالت نے 1956 ء سے ٹرائل شروع کرنے کے لیے ان کی استدعا مسترد کی ہے، اگر ایسا ہے تو انہیں نقل دی جائے تاکہ تحریری وضاحت کر سکیں، جس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا ہم نے ایسا کوئی حکمنامہ جاری نہیں کیا ، میڈیا پر بعض اوقات غلط خبریں بھی چلتی ہیں۔24 اپریل کو آئندہ سماعت پر بیرسٹرفروغ نسیم اکرم شیخ کے موقف پر جوابی دلائل دیں گے اور کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہوگی۔

پراسیکیوٹر کی تقرری کے بارے میں فیصلہ 18 اپریل کو سنادیا جائے گا۔وکیل استغاثہ اکرم شیخ نے شریک ملزموں کے خلاف کارروائی سے متعلق اپنے جواب میں کہا ہے کہ شریک ملزموں سے متعلق مشرف کی درخواست کارروائی کو الجھانے کی کوشش ہے۔ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق مشرف کیخلاف ثبوت ملے ہیں، اکرم شیخ کی جانب سے خصوصی عدالت میں داخل کروائے گئے تحریری جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ سنگین غداری مقدمہ سے متعلق ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم نے میرٹ پر جامع تفتیش کی ہے اور اس حوالے سے تمام دستاویزی ثبوتوں اور شہادتوں کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کے علاوہ مطلقہ لوگوں سے تفتیش بھی کی گئی ہے تاہم ایف آئی اے کی تحقیقات میں صرف پرویز مشرف کیخلاف ثبوت ملے ہیں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے تین نومبر تا 14دسمبر 2007ء کے عرصہ کے دوران بطور صدر و چیف آف آرمی سٹاف پرویز مشرف کی جانب سے اٹھائے گئے تمام اقدامات کے تحریری شواہد و دستاویزات کو تحقیقات رپورٹ میں شامل کیا ہے ان کا کہنا تھا کہ تین نومبر 2007ء کے ایمرجنسی کے فرمان سے متعلق وزیراعظم سیکرٹریٹ میں کوئی ثبوت موجود نہیں ایمرجنسی کا نفاذ کا حکم نامہ وزیراعظم کی ایڈوائس یا اس ضمن میں کسی بھی قسم کی سمری کا ریکارڈ بھی وزیراعظم سیکرٹریٹ میں نہیں پایا گیا جبکہ ایمرجنسی کے حکم نامے پر صرف پرویز مشرف کے دستخط ہیں تاہم جن سرکاری افسران یا شخصیات کا مذکورہ فرمان میں ذکر ہے ان کیخلاف شوائد کی فراہمی کی زمہ داری ملزم ( پرویز مشرف )پر عائد ہوتی ہے اور وہی اس حوالے سے ثبوت فراہم کرکے اپنے الزام کو درست ثابت کرسکتے ہیں ،۔

وزیر اعظم کے دفتر میں ایمرجنسی کے نفاذ کیلئے مشاورت یا ایڈوائس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں، ایمرجنسی کا مشورہ دینے والوں کی نشاندہی صرف پرویز مشرف ہی کر سکتے ہیں۔ایمرجنسی کے فرمان میں جن افراد کا تذکرہ ہے ان کیخلاف شواہد پیش کرنا مشرف کی ذمہ داری ہے۔جسٹس فیصل عرب نے کہا ملزم اپنے دفاع کیلئے تحقیقاتی رپورٹ دیکھنا چاہتا ہے۔ اسے کیوں محروم رکھا جائے،پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے کہاکہ شہادتوں کے بعد رپورٹ کی فراہمی کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔تین نومبر سے 14 دسمبر 2007 تک کے تمام شواہد شکایت کا حصہ ہیں۔