اوسطا25منٹ تک استعمال ہونے وا لے پلاسٹک بیگ کوگل سڑ کر ختم ہو جانے میں پانچ سو سال تک کا بھی عرصہ لگ سکتا ہے‘رپورٹ،ہر سال سمندروں میں تقریباً 6.5 ملین ٹن پلاسٹک کا اضافہ ہو رہا ہے‘ماہرین

جمعہ 18 اپریل 2014 06:40

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔18اپریل۔ 2014ء)ایک اندازے کے مطابق ایک پلاسٹک بیگ اوسطاً25 منٹ تک استعمال ہوتا ہے تاہم اسے گل سڑ کر ختم ہو جانے میں پانچ سو سال تک کا بھی عرصہ لگ سکتا ہے۔ سمندروں میں کوڑے کرکٹ کے طور پر یہ بیگ ایک سنگین مسئلہ بنتے جا رہے ہیں۔سیاحوں کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ ساحل کے ساتھ ساتھ سمندر میں غوطے لگاتے وقت اچانک کوئی چیز اْن کے پاوٴں سے لپٹ جاتی ہے تاہم دیکھنے پر پتہ چلتا ہے کہ یہ چیز کوئی خوبصورت مچھلی نہیں ہوتی بلکہ سمندری لہروں کے تھپیڑوں سے تار تار ہو جانے والا کوئی پلاسٹک بیگ ہوتا ہے۔

ماہرین کے خیال میں دنیا بھر کے سمندروں میں موجود کوڑے کرکٹ کی مقدار ایک سو تا ایک سو پچاس ملین ٹن تک پہنچ چکی ہے اور اس مقدار میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

اسی لیے اْنہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ مفت پلاسٹک بیگ فراہم کرنے کی سہولت ختم کی جانی چاہیے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ہر سال سمندروں میں تقریباً 6.5 ملین ٹن پلاسٹک کا اضافہ ہو رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے اندازوں کے مطابق سمندروں میں ہر مربع کلومیٹر کے علاقے میں تیرنے والے پلاسٹک کے ذرات کی تعداد تقریباً تیرہ ہزار ہے، جنہیں سمندری لہریں چِہار جانب پھیلا رہی ہیں‘ماحول اور قدرتی تحفظ کی جرمن تنظیم BUND نے ایک منشور جرمن وزیر ماحول پیٹر آلٹمائر کو پیش کیا، جس پر یورپ بھر کی ماحولیاتی تنظیموں نے دستخط کیے ہیں اور اس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ 2020ء تک یورپی سمندروں میں کوڑے کرکٹ کی مقدار میں پچاس فیصد تک کی کمی لائی جائے۔

مشکل یہ ہے کہ کئی ذرات اتنے باریک ہوتے ہیں کہ وہ صفائی کی چھلنیوں کی گرفت میں ہی نہیں آ سکتے۔یہ کوڑا سمندر تک پہنچتا کیسے ہے، اس بارے میں تنظیم BUND سے وابستہ نادیہ سیبارتھ بتاتی ہیں ’تقریباً 80 فیصد کوڑا خشکی سے سمندروں میں پہنچتا ہے۔

انگلینڈ اور ہالینڈ میں کھلے آسمان تلے کوڑے کے ڈپووٴں سے کوڑا اْڑ اْڑ کر دریاوٴں میں پہنچتا ہے اور بالآخر سمندر میں جا گرتا ہے۔

اس کوڑے کے نقصانات بتاتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ جانور اس پلاسٹک میں پھنس کر زخمی ہو جاتے ہیں بلکہ موت کے منہ میں بھی چلے جاتے ہیں۔ اسی طرح کئی جانور پلاسٹک کے ذرات کو خوراک سمجھ کر کھا لیتے ہیں اور یہ ذرات مستقل طور پر اْن کے معدوں میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ ایسے جانور بعد ازاں بھوک سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ پلاسٹک ذرات کی صورت میں زہریلے مادے پہلے مچھلیوں تک پہنچتے ہیں اور جب انسان مچھلی کا گوشت کھاتا ہے تو یہ انسان کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔

کئی ممالک میں پلاسٹک بیگز کی مہنگے داموں فراہمی یا اْن پر سرے سے پابندی عائد کرتے ہوئے اس مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ قدرتی ماحول کے تحفظ کی تنظیم NABU سے وابستہ کِم ڈَیٹلوف کہتے ہیں ہمیں پلاسٹک کی مصنوعات کا استعمال کم سے کم کر دینا چاہیے۔ اس کا آغاز کسی پراڈکٹ کے ڈیزائن سے ہوتا ہے۔ ہمیں ایک نہیں بلکہ زیادہ مرتبہ استعمال ہونے والی مصنوعات بازار میں لانی چاہیں۔

ایسی مصنوعات متعارف کروانی چاہییں، جنہیں دوبارہ مرمت کر کے استعمال میں لایا جا سکتا ہو۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ پیکنگ کے لیے کم سے کم مادے استعمال کیے جائیں.

آئر لینڈ میں جب سے گاہکوں کو اپنے پلاسٹک بیگز خریدنا پڑ رہے ہیں، وہاں ان بیگز کے استعمال میں 90 فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔ اب وہاں فی کس سالانہ اٹھارہ پلاسٹک بیگز استعمال کیے جا رہے ہیں۔

جرمنی میں یہ تعداد 71، بلغاریہ میں 421 جبکہ یورپی یونین میں اوسطاً 198 ہے۔کئی ترقی پذیر ممالک ان معاملات میں یورپ سے آگے ہیں۔ کینیا اور یوگنڈا میں پتلے پلاسٹک بیگز پر پابندی ہے۔ ذراموٹے پلاسٹک بیگر کی اجازت ہے لیکن وہ انتہائی مہنگے داموں فروخت ہوتے ہیں۔ مشرقی افریقی ملکوں روانڈا اور تنزانیہ میں بھی گزشتہ سات برسوں سے بازار میں پلاسٹک بیگز دستیاب ہی نہیں ہیں اور یہی صورتِ حال بنگلہ دیش اور بھوٹان میں بھی ہے۔