امریکہ‘ پاکستانی شہری کو دہشت گردی کے الزام میں 5سال قید کی سزا سنا دی گئی، محمد حسن خالد کو 2011 میں کچھ لوگوں کے ساتھ یورپ میں حملوں کی سازش کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا،جیل سے رہائی کے بعد ممکن ہے کہ انھیں واپس پاکستان بھیج دیا جائے

ہفتہ 19 اپریل 2014 07:37

واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔19اپریل۔ 2014ء )امریکہ کی ایک عدالت نے پاکستان سے امریکہ منتقل ہو جانے والے محمد حسن خالد کو دہشت گردی کے الزام میں پانچ برس قید کی سزا سنادی ۔ انھیں 2011 میں کچھ لوگوں کے ساتھ یورپ میں حملوں کی سازش کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔اپنے والدین اور بھائیوں کے ساتھ محمد حسن خالد کو امریکہ آئے ہوئے کچھ ہی برس ہوئے تھے جب انھوں نے اپنی محنت سے جان ہاپنز یونیورسٹی سے مکمل وظیفہ حاصل کر لیا۔

لیکن امریکی ایجنسی ایف بی آئی کے مطابق بالٹی مور کے پاس ایک چھوٹے سے فلیٹ میں اپنے خاندان کے ساتھ رہ رہے خالد ایک دوغلی زندگی جی رہے تھے۔ان کا کہنا ہے کہ پندرہ برس کی عمر میں ہی خالد انٹرنیٹ پر کچھ جہادی اسلامی چیٹ رومز سے سے منسلک تھے اور وہیں ان کی گفتگو ’جہاد جین‘ کے نام سے جانی جانے والی امریکی خاتونی ولین لاروذ سے ہونے لگی۔

(جاری ہے)

وفاقی وکلاء کا کہنا تھا کہ خالد کمپیوٹر کے ماہر ہیں اور انھوں نے اس قابلیت کا استعمال جہادی طاقتوں کے لیے کیا۔ وہ دستاویزات کو ترجمہ کرنے اور مغربی شہریوں کو جہادی بنانے کی کوششوں میں مدد کرتے تھے۔عدالت میں اپنے دفاع میں خالد نے کہا کہ جہادی چیٹ رومز میں ’نفرت کی طاقت اتنی مضبوط تھی کہ اس نے مجھے اپنے پنجے میں پھنسا لیا۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’میری پوری زندگی کچھ ہی برسوں میں تباہ ہو گئی ہے۔

‘سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ ایف بی آئی کی نظر خالد پر پڑ چکی تھی اور انھوں نے انھیں کئی بار سمجھایا بھی کہ وہ اس راستے کو چھوڑ دیں۔’لیکن وہ جہاد کی دنیا کے آ ن لائن ہیرو بننا چاہتے تھے اور اسی نے انھیں پریشانی میں ڈال دیا۔‘عدالتی دستاویزات کے مطابق 2011 میں گرفتاری کے بعد انھوں نے القاعدہ سے متعلق کئی معلومات حاصل کرنے میں اور دہشت گردی کے دوسرے معاملات میں امریکی اہل کاروں کی مدد کی اور اسی وجہ سے ان کی سزا، جو کہ پندرہ برس تک کی ہو سکتی تھی، کم کر دی گئی۔

خالد کے ہی ساتھ گرفتاری یولین لاروذ عرف ’جہاد جین‘ کو اسی سال جنوری میں دس برس کی قید کی سزا سنائی گئی اور ایک اور خاتون جیمی پلن رمیریز کو آٹھ برس کی سزا ہوئی۔لاروذ اور رمیریز پر الزام تھا کہ وہ پیغمبر اسلام کا کارٹون بنانے والے سوئیڈن کے آرٹسٹ کو مارنے کی منصوبہ بندی کر رہی تھیں اور آئر لینڈ میں موجود ایک شدت پسند تنظیم کے ساتھ کام کر رہی تھیں۔

خالد کے وکیل کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ ایسا تھا جس میں خالد کوئی حملہ نہیں کر سکتے تھے۔ ان کے مطابق خالد کبھی اپنے شہر سے باہر نہیں گئے اور صرف لاروذ کی طرف سے بھیجے گئے اس ڈبے کو کھولا تھا جس میں کچھ پاسپورٹ اور پیسے تھے۔ اس میں سے کچھ سامان انھوں نے آئرلینڈ بھیجا تھا۔خالد تین سال جیل میں گزار چکے ہیں اور اگر ان کا سلوک اچھا رہتا ہے تو شاید انھیں چودہ ماہ میں رہا کر دیا جائے گا۔خالد نے کہا کہ ان کی کوشش ہوگی کہ اپنے خاندان کے ساتھ امریکہ میں پھر سے ایک نئی زندگی شروع کریں لیکن وہ امریکی شہری نہیں ہیں اور جیل سے رہائی کے بعد ممکن ہے کہ انھیں واپس پاکستان بھیج دیا جائے۔

متعلقہ عنوان :